بڑھتے ہیں خود بہ خود قدم عزم سفر کو کیا کروں
بڑھتے ہیں خود بہ خود قدم عزم سفر کو کیا کروں زیر قدم ہے کہکشاں ذوق نظر کو کیا کروں تیز ہے کاروان وقت تشنہ ہے جستجو ابھی روک لوں زندگی کہاں شام و سحر کو کیا کروں دیر و حرم کے رنگ بھی دیکھ چکی نگاہ زیست دل میں تو ہے وہی چبھن آہ سحر کو کیا کروں آج بھی ہے وہی مقام آج بھی لب پہ ان کا ...