Salik Lakhnavi

سالک لکھنوی

سالک لکھنوی کی غزل

    بڑھتے ہیں خود بہ خود قدم عزم سفر کو کیا کروں

    بڑھتے ہیں خود بہ خود قدم عزم سفر کو کیا کروں زیر قدم ہے کہکشاں ذوق نظر کو کیا کروں تیز ہے کاروان وقت تشنہ ہے جستجو ابھی روک لوں زندگی کہاں شام و سحر کو کیا کروں دیر و حرم کے رنگ بھی دیکھ چکی نگاہ زیست دل میں تو ہے وہی چبھن آہ سحر کو کیا کروں آج بھی ہے وہی مقام آج بھی لب پہ ان کا ...

    مزید پڑھیے

    ہر آئینے سے میرا دل پوچھتا ہے

    ہر آئینے سے میرا دل پوچھتا ہے یہ سالکؔ وہی ہے تو پہچانتا ہے وہ سچ لائے جتنے وہ سب جھوٹ نکلے مجھے جھوٹا کہتے ہیں وہ انتہا ہے خدا آزمائے صنم آزمائے صنم جانتے ہیں خدا جانتا ہے بہت سونی سونی ہیں لیلیٰ کی راہیں کہ مجنوں کا دل بے صدا ہو گیا ہے یہ مانا کہ سب ہیں رواں سوئے منزل جسے ...

    مزید پڑھیے

    اب ایسی باتیں کوئی کرے جو سب کے من کو لبھا جائیں

    اب ایسی باتیں کوئی کرے جو سب کے من کو لبھا جائیں کوئی تو ایسا گیت چھڑے وہ جس کو سنیں اور آ جائیں بے تال ہے کیسی یہ سرگم بے لہرا پنجم ہے مدھم جو راگ ہے دیپک اس من میں اس راگ کو کیسے گا جائیں اب چلنا ہے تو چلنا ہے کیا پاؤں کے چھالوں کو دیکھیں اس دھرتی کی پگ ڈنڈی سے کوئی ٹھکانا پا ...

    مزید پڑھیے

    وسعت دامان دل کو غم تمہارا مل گیا

    وسعت دامان دل کو غم تمہارا مل گیا زندگی کو زندگی بھر کا سہارا مل گیا ہر دل درد آشنا میں دل ہمارا مل گیا پارہ پارہ ہو چکا تھا پارا پارا مل گیا ہم کہ میخانے کے وارث تھے ہیں اب تک تشنہ لب چند کم ظرفوں کو صہبا کا اجارا مل گیا جس نے خالی جام پٹکا اس مجاہد کو سلام میکدے میں آج پیاسوں ...

    مزید پڑھیے

    ڈرتا رہتا ہوں ہم نشینوں میں

    ڈرتا رہتا ہوں ہم نشینوں میں ایک پتھر ہوں آبگینوں میں بات کرنا جنہیں نہیں آتی آج وہ بھی ہیں نکتہ چینوں میں جو بھنور کو سمجھتے ہیں ساحل ایسے بھی لوگ ہیں سفینوں میں محتسب گن لے انگلیوں ہی پر چند ہی رند ہیں کمینوں میں خضر گزرے تھے شہر سے اپنے ہم بھی تھے ایک راہ بینوں میں بیعت حق ...

    مزید پڑھیے