Saleem Siddiqui

سلیم صدیقی

  • 1976

سلیم صدیقی کی غزل

    خواہش تخت نہ اب درہم و دینار کی گونج

    خواہش تخت نہ اب درہم و دینار کی گونج وادیٔ چشم میں ہے حسرت دیدار کی گونج زخم در زخم سخن اور بھی ہوتا ہے وسیع اشک در اشک ابھرتی ہے قلم کار کی گونج کاش میری بھی سماعت کو ٹھکانہ دے دے دشت محشر میں ترے سایۂ دیوار کی گونج آہٹیں بھی نہیں کرتے مرے اعمال کبھی ایک آواز نہاں ہے مرے کردار ...

    مزید پڑھیے

    بدن قبول ہے عریانیت کا مارا ہوا

    بدن قبول ہے عریانیت کا مارا ہوا مگر لباس نہ پہنیں گے ہم اتارا ہوا وہ جس کے سرخ اجالے میں ہم منور تھے وہ دن بھی شب کے تعاقب میں تھا گزارا ہوا پناہ گاہ شجر فتح کر کے سویا ہے مسافتوں کی تھکن سے یہ جسم ہارا ہوا مجھے زمین کی پرتوں میں رکھ دیا کس نے میں ایک نقش تھا افلاک پہ ابھارا ...

    مزید پڑھیے

    تجھ کو پانے کے لئے خود سے گزر تک جاؤں

    تجھ کو پانے کے لئے خود سے گزر تک جاؤں ایسی جینے کی تمنا ہے کہ مر تک جاؤں اب نہ شیشوں پہ گروں اور نہ شجر تک جاؤں میں ہوں پتھر تو کسی دست ہنر تک جاؤں اک دھندلکا ہوں ذرا دیر میں چھٹ جاؤں گا میں کوئی رات نہیں ہوں جو سحر تک جاؤں جس کے قدموں کے قصیدوں سے ہی فرصت نہ ملے کیسے اس شخص کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2