Saleem Siddiqui

سلیم صدیقی

  • 1976

سلیم صدیقی کی غزل

    غم حیات مٹانا ہے رو کے دیکھتے ہیں

    غم حیات مٹانا ہے رو کے دیکھتے ہیں لہو کا داغ لہو سے ہی دھو کے دیکھتے ہیں عطش کی نیند بہت بڑھ گئی ہے آنکھوں میں چلو فرات کی باہوں میں سو کے دیکھتے ہیں ہمیں ہمارے علاوہ بھی جانتا ہے کوئی وراثتوں کی یہ پہچان کھو کے دیکھتے ہیں تمام عمر بہت روئے زندگی کے لئے اب اپنی لاش پہ کچھ دیر رو ...

    مزید پڑھیے

    کون کہتا ہے کہ یوں ہی رازدار اس نے کیا

    کون کہتا ہے کہ یوں ہی رازدار اس نے کیا خوب پرکھا ہے مجھے تب اعتبار اس نے کیا بے حجاب نفس تھا وہ یا کوئی غافل بدن پیرہن جو بھی دیا ہے تار تار اس نے کیا آج پھر اپنی سماعت سونپ دی اس نے ہمیں آج پھر لہجہ ہمارا اختیار اس نے کیا صرف اک عکس وفا پر ہی نہیں ڈالی ہے خاک آئینہ سازوں کو بھی ...

    مزید پڑھیے

    اک دریچے کی تمنا مجھے دوبھر ہوئی ہے

    اک دریچے کی تمنا مجھے دوبھر ہوئی ہے وہ گھٹن ہی مری سانسوں پہ مقرر ہوئی ہے آج رکھے ہیں قدم اس نے مری چوکھٹ پر آج دہلیز مری چھت کے برابر ہوئی ہے نیند نے نیند سے چونکا کے اٹھایا مجھ کو خواب میں خواب کی تعبیر اجاگر ہوئی ہے اس نے راتوں کے تقدس کو کیا ہے مجروح ایک مٹھی بھی جسے دھوپ ...

    مزید پڑھیے

    ہوں پارسا ترے پہلو میں شب گزار کے بھی

    ہوں پارسا ترے پہلو میں شب گزار کے بھی میں بے لباس نہیں پیرہن اتار کے بھی ہر ایک سر کو بلندی عطا نہیں کرتے اصول ہوتے ہیں کچھ تو صلیب و دار کے بھی ہمارے عکس بھی دھندھلے ہوئے تو ہم سمجھے کہ آئینوں سے ہیں رشتے یہاں غبار کے بھی نہ آبلوں سے ہے رغبت نہ پاؤں سے رنجش عجب سلوک ہیں میدان ...

    مزید پڑھیے

    یقیں کی دھوپ میں سایہ بھی کچھ گمان کا ہے

    یقیں کی دھوپ میں سایہ بھی کچھ گمان کا ہے یہی تو وقت مسافر کے امتحان کا ہے پلٹ رہا ہے زمانہ صدائے حق کی طرف جہان فکر میں چرچا مری اذان کا ہے اسی کے خوف سے لرزاں ہے دشمنوں کا ہجوم وہ ایک تیر جو ٹوٹی ہوئی کمان کا ہے یہی کہیں پہ وفاؤں کی قبر گاہ بھی تھی یہی کہیں سے تو رستہ ترے مکان کا ...

    مزید پڑھیے

    شب کے پر ہول مناظر سے بچا لے مجھ کو

    شب کے پر ہول مناظر سے بچا لے مجھ کو میں تری نیند ہوں آنکھوں میں چھپا لے مجھ کو میں تری راہ مشیت کا ہوں ذرہ لیکن ڈھونڈھنے والا ستاروں میں کھنگالے مجھ کو خوف آنکھوں میں مری دیکھ کے چنگاری کا کر دیا رات نے سورج کے حوالے مجھ کو میں مصور ہوں برے وقت کی تصویروں کا راس آتے ہیں یہ دیوار ...

    مزید پڑھیے

    منظر خیمۂ شب دیکھنے والا ہوگا

    منظر خیمۂ شب دیکھنے والا ہوگا وہ چراغوں کو بجھائے گا اجالا ہوگا شربتی آنکھوں میں کاجل وہ لگائے گا ابھی رات کا رنگ ابھی اور بھی کالا ہوگا مجھ کو ٹھہرے ہوئے ساحل سے نہیں تھی امید مجھ کو بہتے ہوئے پانی نے سنبھالا ہوگا آج پھر اس نے ہتھیلی کو چھپایا ماں سے آج پھر ہاتھ میں اجرت نہیں ...

    مزید پڑھیے

    اپنے جینے کے ہم اسباب دکھاتے ہیں تمہیں

    اپنے جینے کے ہم اسباب دکھاتے ہیں تمہیں دوستو آؤ کہ کچھ خواب دکھاتے ہیں تمہیں تم نے غرقاب سفینے تو بہت دیکھے ہیں سر پٹکتے ہوئے سیلاب دکھاتے ہیں تمہیں حسن کا شور جو برپا ہے ذرا تھمنے دو عشق کا لہجہ نایاب دکھاتے ہیں تمہیں میرے پھیلے ہوئے دامن کے کبھی ساتھ چلو منہ چھپاتے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    یوں تری چاپ سے تحریک سفر ٹوٹتی ہے

    یوں تری چاپ سے تحریک سفر ٹوٹتی ہے جیسے پلکوں کے جھپکنے سے نظر ٹوٹتی ہے بوجھ اشکوں کا اٹھا لیتی ہیں پلکیں میری پھول کے وزن سے کب شاخ شجر ٹوٹتی ہے زندگی جسم کے زنداں میں یہ سانسوں کی صلیب ہم سے توڑی نہیں جاتی ہے مگر ٹوٹتی ہے کوئی جگنو کوئی تارہ نہیں لگتا روشن ظلمت شب میں جب امید ...

    مزید پڑھیے

    اتنی قربت بھی نہیں ٹھیک ہے اب یار کے ساتھ

    اتنی قربت بھی نہیں ٹھیک ہے اب یار کے ساتھ زخم کھا جاؤ گے کھیلو گے جو تلوار کے ساتھ ایک آہٹ بھی مرے گھر سے ابھرتی ہے اگر لوگ کان اپنے لگا لیتے ہیں دیوار کے ساتھ پاؤں ساکت ہیں مگر گھوم رہی ہے دنیا زندگی ٹھہری ہوئی لگتی ہے رفتار کے ساتھ ایک جلتا ہوا آنسو مری آنکھوں سے گرا بیڑیاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2