Saleem Siddiqui

سلیم صدیقی

  • 1976

سلیم صدیقی کے تمام مواد

13 غزل (Ghazal)

    غم حیات مٹانا ہے رو کے دیکھتے ہیں

    غم حیات مٹانا ہے رو کے دیکھتے ہیں لہو کا داغ لہو سے ہی دھو کے دیکھتے ہیں عطش کی نیند بہت بڑھ گئی ہے آنکھوں میں چلو فرات کی باہوں میں سو کے دیکھتے ہیں ہمیں ہمارے علاوہ بھی جانتا ہے کوئی وراثتوں کی یہ پہچان کھو کے دیکھتے ہیں تمام عمر بہت روئے زندگی کے لئے اب اپنی لاش پہ کچھ دیر رو ...

    مزید پڑھیے

    کون کہتا ہے کہ یوں ہی رازدار اس نے کیا

    کون کہتا ہے کہ یوں ہی رازدار اس نے کیا خوب پرکھا ہے مجھے تب اعتبار اس نے کیا بے حجاب نفس تھا وہ یا کوئی غافل بدن پیرہن جو بھی دیا ہے تار تار اس نے کیا آج پھر اپنی سماعت سونپ دی اس نے ہمیں آج پھر لہجہ ہمارا اختیار اس نے کیا صرف اک عکس وفا پر ہی نہیں ڈالی ہے خاک آئینہ سازوں کو بھی ...

    مزید پڑھیے

    اک دریچے کی تمنا مجھے دوبھر ہوئی ہے

    اک دریچے کی تمنا مجھے دوبھر ہوئی ہے وہ گھٹن ہی مری سانسوں پہ مقرر ہوئی ہے آج رکھے ہیں قدم اس نے مری چوکھٹ پر آج دہلیز مری چھت کے برابر ہوئی ہے نیند نے نیند سے چونکا کے اٹھایا مجھ کو خواب میں خواب کی تعبیر اجاگر ہوئی ہے اس نے راتوں کے تقدس کو کیا ہے مجروح ایک مٹھی بھی جسے دھوپ ...

    مزید پڑھیے

    ہوں پارسا ترے پہلو میں شب گزار کے بھی

    ہوں پارسا ترے پہلو میں شب گزار کے بھی میں بے لباس نہیں پیرہن اتار کے بھی ہر ایک سر کو بلندی عطا نہیں کرتے اصول ہوتے ہیں کچھ تو صلیب و دار کے بھی ہمارے عکس بھی دھندھلے ہوئے تو ہم سمجھے کہ آئینوں سے ہیں رشتے یہاں غبار کے بھی نہ آبلوں سے ہے رغبت نہ پاؤں سے رنجش عجب سلوک ہیں میدان ...

    مزید پڑھیے

    یقیں کی دھوپ میں سایہ بھی کچھ گمان کا ہے

    یقیں کی دھوپ میں سایہ بھی کچھ گمان کا ہے یہی تو وقت مسافر کے امتحان کا ہے پلٹ رہا ہے زمانہ صدائے حق کی طرف جہان فکر میں چرچا مری اذان کا ہے اسی کے خوف سے لرزاں ہے دشمنوں کا ہجوم وہ ایک تیر جو ٹوٹی ہوئی کمان کا ہے یہی کہیں پہ وفاؤں کی قبر گاہ بھی تھی یہی کہیں سے تو رستہ ترے مکان کا ...

    مزید پڑھیے

تمام