Salahuddin Ayyub

صلاح الدین ایوب

صلاح الدین ایوب کی نظم

    عید مناؤں کیسے

    آج میں عید مناؤں تو مناؤں کیسے تجھ کو سینے سے لگاؤں تو لگاؤں کیسے عید گاہ اب تو میں تنہا ہی نکل جاتا ہوں ساتھ میں تجھ کو بھی لاؤں تو میں لاؤں کیسے یاد آتا ہے تیرا انگلی پکڑ کر چلنا ان جھرونکوں کو بھلاؤں تو بھلاؤں کیسے تیرے ہم عمروں کی محفل ہی سے تو رونق تھی محفلیں اب وہ سجاؤں تو ...

    مزید پڑھیے

    عید

    گاؤں میں عید پھرا کرتی تھی گلیاں گلیاں اور اس شہر میں تھک کر یوں ہی سو جاتی ہے پہلے ہنستی تھی ہنساتی تھی کھلاتی تھی مجھے اب تو وہ پاس بھی آتی ہے تو رو جاتی ہے کتنی مستانہ سی تھی عید مرے بچپن کی اب خیالوں میں بھی لاتا ہوں تو کھو جاتی ہے ہم کبھی عید مناتے تھے منانے کی طرح اب تو بس ...

    مزید پڑھیے

    کشمکش

    دل یہ بولے کہ باندھ رخت سفر اور ذہن آئے بیڑیاں بن کر اب اذیت ترا مقدر ہے تو نکل جا یا دیکھ لے رک کر ہاں مگر ایک ایک لمحہ وہ جو تو اس کشمکش سے گزرے گا اک حسیں باب بن کے یادوں کا عمر بھر تیرے ساتھ ٹھہرے گا وہ سفر جو نہ طے کیا تو نے پیار سے بار بار چھیڑے گا

    مزید پڑھیے