بندشیں توڑ کے ایسا تو نکل آیا تھا
بندشیں توڑ کے ایسا تو نکل آیا تھا چاند جیسے کہ فلک سے یہ پھسل آیا تھا میرا یہ دل جسے پتھر بھی بہت نرم لگے برف جیسا مرے سینے میں پگھل آیا تھا ایسی وادی سے بھلا کون پلٹ کر آئے ایک بچہ ہی سا تھا میں جو نکل آیا تھا تم کو اندر کی بغاوت کا کوئی علم نہیں جسم کو پیٹھ پہ رکھا تھا تو چل ...