Salahuddin Ayyub

صلاح الدین ایوب

صلاح الدین ایوب کی غزل

    بندشیں توڑ کے ایسا تو نکل آیا تھا

    بندشیں توڑ کے ایسا تو نکل آیا تھا چاند جیسے کہ فلک سے یہ پھسل آیا تھا میرا یہ دل جسے پتھر بھی بہت نرم لگے برف جیسا مرے سینے میں پگھل آیا تھا ایسی وادی سے بھلا کون پلٹ کر آئے ایک بچہ ہی سا تھا میں جو نکل آیا تھا تم کو اندر کی بغاوت کا کوئی علم نہیں جسم کو پیٹھ پہ رکھا تھا تو چل ...

    مزید پڑھیے

    اس ایک در کو بھی دیوار کر کے آیا ہوں

    اس ایک در کو بھی دیوار کر کے آیا ہوں میں اپنے آپ سے انکار کر کے آیا ہوں مجھے خبر ہے کہ یہ پیاس مار ڈالے گی مگر میں آب کو دشوار کر کے آیا ہوں بچا بچا کے رکھا تھا جسے زمانے سے وہ گنبد آج میں مسمار کر کے آیا ہوں مبادا خواب بکھرنا محال ہو جائے میں خود کو نیند سے بیدار کر کے آیا ہوں نہ ...

    مزید پڑھیے