عید مناؤں کیسے

آج میں عید مناؤں تو مناؤں کیسے
تجھ کو سینے سے لگاؤں تو لگاؤں کیسے


عید گاہ اب تو میں تنہا ہی نکل جاتا ہوں
ساتھ میں تجھ کو بھی لاؤں تو میں لاؤں کیسے


یاد آتا ہے تیرا انگلی پکڑ کر چلنا
ان جھرونکوں کو بھلاؤں تو بھلاؤں کیسے


تیرے ہم عمروں کی محفل ہی سے تو رونق تھی
محفلیں اب وہ سجاؤں تو سجاؤں کیسے


آج بھی ماں نے پکائی ہیں سوئیاں میٹھی
میں تجھے لا کے کھلاؤں تو کھلاؤں کیسے


چاند تو دیکھ لیا میں نے بہت صاف سا تھا
اپنے چندا کو دکھاؤں تو دکھاؤں کیسے


سال یہ بیت گیا راستہ تکتے تکتے
صبر اب ختم بتاؤں تو بتاؤں کیسے


مجھ کو معلوم ہے معصوم ہے مظلوم ہے تو
تجھ کو انصاف دلاؤں تو دلاؤں کیسے