Sajjad Babar

سجاد بابر

سجاد بابر کی غزل

    ادھڑے ہوئے ملبوس کا پرچم سا گیا ہے

    ادھڑے ہوئے ملبوس کا پرچم سا گیا ہے بازار سے پھر آج کوئی ہم سا گیا ہے جھونکا تھا مگر چھیڑ کے گزرا ہے کچھ ایسے جیسے ترے پیکر کا کوئی خم سا گیا ہے چھوڑوں کہ مٹا ڈالوں اسی سوچ میں گم ہوں آئینے پہ اک قطرۂ خوں جم سا گیا ہے گالوں پہ شفق پھولتی دیکھی نہیں کب سے لگتا ہے کہ جسموں میں لہو ...

    مزید پڑھیے

    لفظ کا کتنا تقدس ہے یہ کب جانتے ہیں

    لفظ کا کتنا تقدس ہے یہ کب جانتے ہیں لوگ بس بات بنا لینے کا ڈھب جانتے ہیں اپنی پہچان بھلا ڈولتے لفظوں میں کہاں ضبط کا نشہ لرزتے ہوئے لب جانتے ہیں سب نے گلکارئ دیوار سرا ہی لیکن کتنے دیوار اٹھانے کا سبب جانتے ہیں شہر والے تو ہواؤں میں گھلے زہر کا حال رنگ تصویر سے اڑ جاتے ہیں تب ...

    مزید پڑھیے

    بنتے رہے ہیں دل میں عجب گرد باد سے

    بنتے رہے ہیں دل میں عجب گرد باد سے رنگوں کو آزما نہ سکے اعتماد سے یہ اور بات آبلے ہونٹوں پہ پڑ گئے دہلیز چوم لی ہے مگر اعتقاد سے برسوں کی بے زبان تھکاوٹ لپٹ گئی جب شہر دل میں لوٹ کے آئے جہاد سے سرسوں کی چاندنی سے برہنہ درخت تک ہر شے کی دل کشی نکھر آئی تضاد سے کچھ خوش دہن رفیق ...

    مزید پڑھیے

    جلتی ہوائیں کہہ گئیں عزم ثبات چھوڑ دے

    جلتی ہوائیں کہہ گئیں عزم ثبات چھوڑ دے تیرا بدن پگھل گیا دست حیات چھوڑ دے آگ سے کھیل کھیل کر کتنے جلا لئے ہیں ہاتھ تجھ سے کہا تھا بارہا دیکھ یہ بات چھوڑ دے میں تیرے ساتھ ہوں مگر یہ وہ مقام ہے کہ اب جو تیرے جی میں آئے کر جا میری بات چھوڑ دے تیری نظر سراب پر مجھ کو عزیز گرد راہ تو ...

    مزید پڑھیے

    تو یوں کہو نا دلوں کا شکار کرنا ہے

    تو یوں کہو نا دلوں کا شکار کرنا ہے ہوا کے ساتھ سفر اختیار کرنا ہے بجا کہ زخم نہ گنوائیں گے مگر جاناں وہ پھول کتنے ہیں جن کا شمار کرنا ہے غرور و تمکنت و جہل سے نبھا لینا فراز کوہ کو گویا غبار کرنا ہے وہ بد سرشت پرندہ ہے اس کا مسلک ہی جو پک گئے وہ ثمر داغدار کرنا ہے اسے بھی رات گئے ...

    مزید پڑھیے

    ہوا میں کچھ تو گھلا تھا کہ ہونٹ نیلے ہوئے

    ہوا میں کچھ تو گھلا تھا کہ ہونٹ نیلے ہوئے گلے لگاتے ہی تازہ گلاب پیلے ہوئے نہ دشت جان پہ برسی رفاقتوں کی پھوار نہ آنکھ میں چمک آئی نہ لب ہی گیلے ہوئے اندھیرے اوڑھنا چاہے تو بدلیاں چمکیں چراغ اجالنا چاہے تو لاکھ حیلے ہوئے تمام رات اسی کہر کے جزیرے پر الجھ الجھ کے شعاعوں کے ہاتھ ...

    مزید پڑھیے

    اک درد سب کے درد کا مظہر لگا مجھے

    اک درد سب کے درد کا مظہر لگا مجھے دریا سمندروں کا شناور لگا مجھے مجھ کو خلا کے پار سے آتی ہے اک صدا اے رہرو خیال ذرا پر لگا مجھے یہ اور بات میں نے کھنگالا انہیں بہت ان پانیوں سے ڈر ہے برابر لگا مجھے زخمی افق دھوئیں کی کمند اونگھتے درخت منظر کی زد میں آ کے بڑا ڈر لگا مجھے وہ دن ...

    مزید پڑھیے

    بھٹکی ہے اجالوں میں نظر شام سے پہلے

    بھٹکی ہے اجالوں میں نظر شام سے پہلے یہ شام ڈھلے کا سا اثر شام سے پہلے سکتے میں سسکتے ہوئے تابوت کھلیں گے اچھا ہے نکل جائے یہ ڈر شام سے پہلے وہ رزمیہ پڑھتے ہیں وہ اکساتے ہیں مجھ کو جاتی ہوئی کرنوں کے بھنور شام سے پہلے میں ٹیلے پہ بیٹھا تو سنی شہر کی سسکی دیکھے مرے آنگن مرے گھر ...

    مزید پڑھیے

    اک ہوا اٹھے گی سارے بال و پر لے جائے گی

    اک ہوا اٹھے گی سارے بال و پر لے جائے گی یہ نئی رت اب کے سب کچھ لوٹ کر لے جائے گی ایک خدشہ پہلے دروازے سے اپنے ساتھ ہے راستوں کی دل کشی خوئے سفر لے جائے گی ایک چوراہے پہ لا کر چھپ گیا ہے آفتاب کوئی آوارہ کرن اب در بدر لے جائے گی اک توقع لے کے ٹکرایا ہوں ہر رہرو کے ساتھ کوئی ...

    مزید پڑھیے

    دھیمی بارش کی لے میں احوال سناتے رہنا

    دھیمی بارش کی لے میں احوال سناتے رہنا اس کا ایک جھروکے میں پھر شال سکھاتے رہنا جانے کس کی یاد آتی ہے ساحل ساحل جا کر ریت پہ زخمی پوروں سے اشکال بناتے رہنا ربط اک شے کلیوں سے کومل اور ہوائیں مورکھ ٹوٹے اس کے تار تو کیا سر تال ملاتے رہنا کیا جانے کب لمحوں کی مفرور سماعت لوٹے اچھی ...

    مزید پڑھیے