ادھڑے ہوئے ملبوس کا پرچم سا گیا ہے
ادھڑے ہوئے ملبوس کا پرچم سا گیا ہے بازار سے پھر آج کوئی ہم سا گیا ہے جھونکا تھا مگر چھیڑ کے گزرا ہے کچھ ایسے جیسے ترے پیکر کا کوئی خم سا گیا ہے چھوڑوں کہ مٹا ڈالوں اسی سوچ میں گم ہوں آئینے پہ اک قطرۂ خوں جم سا گیا ہے گالوں پہ شفق پھولتی دیکھی نہیں کب سے لگتا ہے کہ جسموں میں لہو ...