Saima Ishaq

صائمہ اسحاق

صائمہ اسحاق کی نظم

    مجسمہ

    بڑی مشکل سے خود کو پتھروں کے بیچ ڈھالا ہے بڑی دشواریوں کے بعد اس دل کو سنبھالا ہے مگر صدیوں کے بعد اس نے کوئی پیغام بھیجا ہے مرے آغاز کو پھر سے نیا انجام بھیجا ہے سو اب دل چاہتا ہے کہ مدھر نغموں میں کھو جاؤں کسی کے ان کہے جملوں کو من ہی من میں دہراؤں کسی کے نام پر پھر سے میں اب کچھ ...

    مزید پڑھیے

    حیرت ہے

    عورتیں جنس تو نہیں ہوتیں جن کو بازار میں کھڑا کر دو اپنے ہر اک گناہ کے بدلے ان کو تاوان میں ادا کر دو اپنے کردار کی گراوٹ کو ایسے چہروں پہ تم سجاتے ہو اپنی تہذیب کا حسیں چہرہ کس طرح مسخ کرتے جاتے ہو اپنی ماں بہن اور بیٹی کا جس طرح ماس نوچ کھاتے ہو ایسے بے حس تماش بینوں کی آنکھ کی ...

    مزید پڑھیے