Saif Zulfi

سیف زلفی

سیف زلفی کی غزل

    سینے کی آگ آتش محشر ہو جس طرح

    سینے کی آگ آتش محشر ہو جس طرح یوں موجزن ہے غم کہ سمندر ہو جس طرح زخموں سے یوں ہے جسم کی دیوار ضو فگن شعلوں کا رقص شاخ شجر پر ہو جس طرح بادل کا شور ہانپتے پیڑوں کی بے بسی یوں دیکھتا ہوں میرے ہی اندر ہو جس طرح اڑتے ہوئے غبار میں آنکھوں کا دشت بھی کچھ یوں لگا کہ خشک سمندر ہو جس ...

    مزید پڑھیے

    مہکا ہے زخم زخم ہوائیں ہیں منچلی

    مہکا ہے زخم زخم ہوائیں ہیں منچلی برسا ہے تیری یاد کا ساون گلی گلی دیوار و در تو راہ میں حائل نہ ہو سکے آگے بڑھوں تو پاؤں پکڑتی ہے بیکلی اک ماہتاب تھا کہ پگھلتا چلا گیا اک شمع تھی کہ ساتھ مرے رات بھر جلی وہ روشنی جو تو نے ہمیں دی تھی دن ڈھلے وہ روشنی بھی ہم نے لٹا دی گلی گلی یہ ...

    مزید پڑھیے

    کیوں جل بجھے کہیں تو گرفتار بولتے

    کیوں جل بجھے کہیں تو گرفتار بولتے زنداں میں چپ رہے تو سر دار بولتے گھر گھر یہاں تھا گوش بر آواز دیر سے آتی صدا تو سب در و دیوار بولتے ہوتا تمہارے خون کا دریا جو موجزن طوفاں سمندروں میں بہ یک بار بولتے دیتا تمہارا نطق دہائی تو فطرتاً لوح و قلم کے بام سے فن کار بولتے تم بولتے ...

    مزید پڑھیے

    کوفے کے قریب ہو گیا ہے

    کوفے کے قریب ہو گیا ہے لاہور عجیب ہو گیا ہے ہر دوست ہے میرے خوں کا پیاسا ہر دوست رقیب ہو گیا ہے ہر آنکھ کی ظلمتوں سے یاری ہر ذہن مہیب ہو گیا ہے کیا ہنستا ہنساتا شہر یارو حاسد کا نصیب ہو گیا ہے پھیلا تھا مسیح وقت بن کر سمٹا تو صلیب ہو گیا ہے کاغذ پہ اگل رہا ہے نفرت کم ظرف ادیب ہو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2