Saif Zulfi

سیف زلفی

سیف زلفی کے تمام مواد

14 غزل (Ghazal)

    یادوں کی گونج ذہن سے باہر نکالئے

    یادوں کی گونج ذہن سے باہر نکالئے گنبد نہ چیخ اٹھے کوئی در نکالئے کھل جائیے برستے ہوئے ابر کی طرح جو چیز دل میں ہے اسے باہر نکالئے بن کر دکھائیے کسی بہزاد کا جواب پتھر تراش کر کوئی پیکر نکالئے رکھئے شناوری کا بھرم کچھ نہ کچھ ضرور موتی نہ ہاتھ آئے تو پتھر نکالئے منظور ہے غرور ...

    مزید پڑھیے

    بے چین ہوں خونابہ فشانی میں گھرا ہوں

    بے چین ہوں خونابہ فشانی میں گھرا ہوں بھیگے ہوئے لفظوں کے معانی میں گھرا ہوں جو پیڑ پکڑتا ہوں اکھڑ جاتا ہے جڑ سے سیلاب کے دھارے کی روانی میں گھرا ہوں مفہوم کا ساحل تو نظر آتا ہے لیکن میں دیر سے گرداب معانی میں گھرا ہوں اب لوگ سناتے ہیں مجھے میرے ہی قصے میں پھیل کے اپنی ہی کہانی ...

    مزید پڑھیے

    لہجے کا رنگ لفظ کی خوشبو بھی دیکھ لے

    لہجے کا رنگ لفظ کی خوشبو بھی دیکھ لے آ مجھ سے کر کلام مجھے تو بھی دیکھ لے میں چودھویں کا چاند سمندر ترا بدن میری کشش کا بولتا جادو بھی دیکھ لے کھلتا ہوں تیرے رخ کی سجل چاندنی کے پاس پہچان لے مجھے مری خوشبو بھی دیکھ لے تو خار زار اور میں ابر برہنہ پا میرے سفر کا کرب کبھی تو بھی ...

    مزید پڑھیے

    سائے جو سنگ راہ تھے رستے سے ہٹ گئے

    سائے جو سنگ راہ تھے رستے سے ہٹ گئے دل جل اٹھا تو خود ہی اندھیرے سمٹ گئے دن بھر جلے جو دھوپ کے بستر پہ دوستو سورج چھپا تو چادر شب میں سمٹ گئے وہ کرب تھا کہ دل کا لہو آنچ دے اٹھا ایسی ہوا چلی کہ گریبان پھٹ گئے وہ فکر تھی کہ دیدہ و دل مضمحل ہوئے وہ گرد تھی کہ گھر کے در و بام اٹ ...

    مزید پڑھیے

    اوڑھی ردائے درد بھی حالات کی طرح

    اوڑھی ردائے درد بھی حالات کی طرح تاریکیوں میں ڈوب گئے رات کی طرح شیوہ نہیں کہ شعلۂ غم سے کریں گریز ہر زخم ہے قبول نئی بات کی طرح نیند آ رہی ہے کرب کی آغوش میں مجھے سینے پہ دست غم ہے ترے ہات کی طرح میں اپنے آپ سے کبھی باہر نہ آ سکا الجھا رہا ہوں خود میں خیالات کی طرح حیران ہوں ...

    مزید پڑھیے

تمام