یادوں کی گونج ذہن سے باہر نکالئے
یادوں کی گونج ذہن سے باہر نکالئے گنبد نہ چیخ اٹھے کوئی در نکالئے کھل جائیے برستے ہوئے ابر کی طرح جو چیز دل میں ہے اسے باہر نکالئے بن کر دکھائیے کسی بہزاد کا جواب پتھر تراش کر کوئی پیکر نکالئے رکھئے شناوری کا بھرم کچھ نہ کچھ ضرور موتی نہ ہاتھ آئے تو پتھر نکالئے منظور ہے غرور ...