Saif Zulfi

سیف زلفی

سیف زلفی کی غزل

    یادوں کی گونج ذہن سے باہر نکالئے

    یادوں کی گونج ذہن سے باہر نکالئے گنبد نہ چیخ اٹھے کوئی در نکالئے کھل جائیے برستے ہوئے ابر کی طرح جو چیز دل میں ہے اسے باہر نکالئے بن کر دکھائیے کسی بہزاد کا جواب پتھر تراش کر کوئی پیکر نکالئے رکھئے شناوری کا بھرم کچھ نہ کچھ ضرور موتی نہ ہاتھ آئے تو پتھر نکالئے منظور ہے غرور ...

    مزید پڑھیے

    بے چین ہوں خونابہ فشانی میں گھرا ہوں

    بے چین ہوں خونابہ فشانی میں گھرا ہوں بھیگے ہوئے لفظوں کے معانی میں گھرا ہوں جو پیڑ پکڑتا ہوں اکھڑ جاتا ہے جڑ سے سیلاب کے دھارے کی روانی میں گھرا ہوں مفہوم کا ساحل تو نظر آتا ہے لیکن میں دیر سے گرداب معانی میں گھرا ہوں اب لوگ سناتے ہیں مجھے میرے ہی قصے میں پھیل کے اپنی ہی کہانی ...

    مزید پڑھیے

    لہجے کا رنگ لفظ کی خوشبو بھی دیکھ لے

    لہجے کا رنگ لفظ کی خوشبو بھی دیکھ لے آ مجھ سے کر کلام مجھے تو بھی دیکھ لے میں چودھویں کا چاند سمندر ترا بدن میری کشش کا بولتا جادو بھی دیکھ لے کھلتا ہوں تیرے رخ کی سجل چاندنی کے پاس پہچان لے مجھے مری خوشبو بھی دیکھ لے تو خار زار اور میں ابر برہنہ پا میرے سفر کا کرب کبھی تو بھی ...

    مزید پڑھیے

    سائے جو سنگ راہ تھے رستے سے ہٹ گئے

    سائے جو سنگ راہ تھے رستے سے ہٹ گئے دل جل اٹھا تو خود ہی اندھیرے سمٹ گئے دن بھر جلے جو دھوپ کے بستر پہ دوستو سورج چھپا تو چادر شب میں سمٹ گئے وہ کرب تھا کہ دل کا لہو آنچ دے اٹھا ایسی ہوا چلی کہ گریبان پھٹ گئے وہ فکر تھی کہ دیدہ و دل مضمحل ہوئے وہ گرد تھی کہ گھر کے در و بام اٹ ...

    مزید پڑھیے

    اوڑھی ردائے درد بھی حالات کی طرح

    اوڑھی ردائے درد بھی حالات کی طرح تاریکیوں میں ڈوب گئے رات کی طرح شیوہ نہیں کہ شعلۂ غم سے کریں گریز ہر زخم ہے قبول نئی بات کی طرح نیند آ رہی ہے کرب کی آغوش میں مجھے سینے پہ دست غم ہے ترے ہات کی طرح میں اپنے آپ سے کبھی باہر نہ آ سکا الجھا رہا ہوں خود میں خیالات کی طرح حیران ہوں ...

    مزید پڑھیے

    دل کے شجر کو خون سے گلنار دیکھ کر

    دل کے شجر کو خون سے گلنار دیکھ کر خوش ہوں نئی بہار کے آثار دیکھ کر صحرا بھلے کہ ذہن کو کچھ تو سکوں ملے گھبرا گیا ہوں شہر کے بازار دیکھ کر آگے بڑھے تو تیرگیٔ شب نے آ لیا نکلے تھے گھر سے صبح کے آثار دیکھ کر آنسو گرے تو دل کی زمیں اور جل اٹھی برسا ہے ابر خاک کا معیار دیکھ کر سارے ...

    مزید پڑھیے

    اتنے دکھی ہیں ہم کو مسرت بھی غم بنے

    اتنے دکھی ہیں ہم کو مسرت بھی غم بنے امرت ہمارے ہونٹ سے مس ہو تو سم بنے روئے برنگ ابر فرشتے بھی گوندھ کر کس دشت‌ اشک و آہ کی مٹی سے ہم بنے کچھ اور بھی تو شیش محل راستے میں تھے کیوں ہم فقط نشانۂ سنگ ستم بنے آنکھوں کے سامنے ہے شکستہ در سکوں ہم تک رہے ہیں دیر سے تصویر غم بنے برسے ...

    مزید پڑھیے

    اشکوں میں قلم ڈبو رہا ہے

    اشکوں میں قلم ڈبو رہا ہے فن کار جوان ہو رہا ہے مقتل کے دکھا رہا ہے منظر کاغذ کو لہو سے دھو رہا ہے ظالم کو سکھا رہا ہے انصاف پتھر میں درخت بو رہا ہے پربت سے لڑا رہا ہے آنکھیں مٹی سے طلوع ہو رہا ہے ہاری ہوئی رات کا سویرا غنچوں کی جبیں بھگو رہا ہے ذرے کو بنا کے ایک قوت خود اپنا ...

    مزید پڑھیے

    تنہائی کے شعلوں پہ مچلنے کے لیے تھا

    تنہائی کے شعلوں پہ مچلنے کے لیے تھا کیا مجھ سا جواں آگ میں جلنے کے لیے تھا کیا کاتب تقدیر سے زخموں کی شکایت جو تیر تھا ترکش میں سو چلنے کے لیے تھا جلتا ہے مرے دل میں پڑا داغ کی صورت جو چاند سر عرش نکلنے کے لیے تھا اس جھیل میں تجھ سے بھی کوئی لہر نہ اٹھی اور تو مری تقدیر بدلنے کے ...

    مزید پڑھیے

    اب کیا گلہ کریں کہ مقدر میں کچھ نہ تھا

    اب کیا گلہ کریں کہ مقدر میں کچھ نہ تھا ہم غوطہ زن ہوئے تو سمندر میں کچھ نہ تھا دیوانہ کر گئی تری تصویر کی کشش چوما جو پاس جا کے تو پیکر میں کچھ نہ تھا اپنے لہو کی آگ ہمیں چاٹتی رہی اپنے بدن کا زہر تھا ساغر میں کچھ نہ تھا دیکھا تو سب ہی لعل و جواہر لگے مجھے پرکھا جو دوستوں کو تو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2