Safi Lakhnavi

صفی لکھنوی

کلاسیکی کے آخری اہم شعراء میں ایک بیحد مقبول نام

Prominent later classical poet who enjoyed wide popularity

صفی لکھنوی کی غزل

    تڑپ کے رات بسر کی جو اک مہم سر کی

    تڑپ کے رات بسر کی جو اک مہم سر کی چھری تھی میرے لیے جو شکن تھی بستر کی عرق عرق ہیں جو گرمی سے روز محشر کی پناہ ڈھونڈتے ہیں میرے دامن تر کی ہوا گمان اسی شوخ سست پیماں کا اگر ہوا سے بھی زنجیر ہل گئی در کی اسی طرف ترے قرباں نگاہ شرم آلود مجھی پہ تیز ہو یہ باڑھ کند خنجر کی خرام وہ جو ...

    مزید پڑھیے

    طالب دید پہ آنچ آئے یہ منظور نہیں

    طالب دید پہ آنچ آئے یہ منظور نہیں دل میں ہے ورنہ وہ بجلی جو سر طور نہیں دل سے نزدیک ہیں آنکھوں سے بھی کچھ دور نہیں مگر اس پہ بھی ملاقات انہیں منظور نہیں ہم کو پروانہ و بلبل کی رقابت سے غرض گل میں وہ رنگ نہیں شمع میں وہ نور نہیں خلوت دل نہ سہی کوچۂ شہہ رگ ہی سہی پاس رہ کر نہ سہی آپ ...

    مزید پڑھیے

    وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے

    وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے شب فرقت کے غم جھیلے ہوؤں کا دم نکلتا ہے الٰہی خیر ہو الجھن پہ الجھن بڑھتی جاتی ہے نہ میرا دم نہ ان کے گیسوؤں کا خم نکلتا ہے قیامت ہی نہ ہو جائے جو پردے سے نکل آؤ تمہارے منہ چھپانے میں تو یہ عالم نکلتا ہے شکست رنگ رخ آئینۂ بے تابئ دل ...

    مزید پڑھیے

    کوئی آباد منزل ہم جو ویراں دیکھ لیتے ہیں

    کوئی آباد منزل ہم جو ویراں دیکھ لیتے ہیں بہ حسرت سوئے چرخ فتنہ ساماں دیکھ لیتے ہیں نظر حسن آشنا ٹھہری وہ خلوت ہو کہ جلوت ہو جب آنکھیں بند کیں تصویر جاناں دیکھ لیتے ہیں شب وعدہ ہمیشہ سے یہی معمول ہے اپنا سحر تک راہ شوخ سست پیماں دیکھ لیتے ہیں خدا نے دی ہیں جن روشن دلوں کو دوربیں ...

    مزید پڑھیے

    پیغام زندگی نے دیا موت کا مجھے

    پیغام زندگی نے دیا موت کا مجھے مرنے کے انتظار میں جینا پڑا مجھے اس انقلاب کی بھی کوئی حد ہے دوستو نا آشنا سمجھتے ہیں اب آشنا مجھے کشتی پہنچ سکے گی یہ تا ساحل مراد دھوکا نہ دے خدا کے لیے نا خدا مجھے وہ طول عمر جس میں نہ ہو لطف زندگی مل جائے مثل خضر تو کیا فائدہ مجھے دوں تیرا ...

    مزید پڑھیے

    جانا جانا جلدی کیا ہے ان باتوں کو جانے دو

    جانا جانا جلدی کیا ہے ان باتوں کو جانے دو ٹھہرو ٹھہرو دل تو ٹھہرے مجھ کو ہوش میں آنے دو پانو نکالو خلوت سے آئے جو قیامت آنے دو سیارے سر آپس میں ٹکرائیں اگر ٹکرانے دو بادل گرجا بجلی چمکی روئی شبنم پھول ہنسے مرغ سحر کو ہجر کی شب کے افسانے دہرانے دو ہاتھ میں ہے آئینہ و شانہ پھر ...

    مزید پڑھیے

    درد آغاز محبت کا اب انجام نہیں

    درد آغاز محبت کا اب انجام نہیں زندگی کیا ہے اگر موت کا پیغام نہیں کیجیے غور تو ہر لذت دنیا ہے فریب کون دانہ ہے یہاں پر جو تہ دام نہیں ہے تنزل کہ زمانے نے ترقی کی ہے کفر وہ کفر اب اسلام وہ اسلام نہیں کون آزاد نہیں حلقہ بگوشوں میں ترے نقش کس دل کے نگینے پہ ترا نام نہیں نا رسیدہ ہے ...

    مزید پڑھیے