Saeeduzzamaan Abbasi

سعید الزماں عباسی

سعید الزماں عباسی کی غزل

    ہم اہل دل بھی اگر فکر جان و تن کرتے

    ہم اہل دل بھی اگر فکر جان و تن کرتے تو لوگ حسن پہ اظہار حسن ظن کرتے بھٹک رہی ہیں خزاں دیدہ خار و خس کی طرح وہ کم نظر جو چلے تھے چمن چمن کرتے بہار کب تھی ترا آئنہ کہ دیوانے قبائے گل کی طرح چاک پیرہن کرتے سنوارتا نہ کوئی تیری زلف مشکیں کو جو ہم بھی پیرویٔ آہوئے ختن کرتے

    مزید پڑھیے

    جل کر ان آنکھوں میں آنسو جب کاجل بن جاتے ہیں

    جل کر ان آنکھوں میں آنسو جب کاجل بن جاتے ہیں دل سے اٹھ کر ریگ بگولے دل بادل بن جاتے ہیں کوئی سچی بات زباں پر جب بھی کبھی آ جاتی ہے وہ صحرا ہو یا گلشن ہو سب مقتل بن جاتے ہیں جب بھی ذہن میں جاگ اٹھتی ہے ان ہونٹوں کی شیرینی کیسے کیسے تلخ مسائل جان غزل بن جاتے ہیں اس سے زیادہ کیا ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے محکم جنہیں جانا وہ ستارے ٹوٹے

    ہم نے محکم جنہیں جانا وہ ستارے ٹوٹے موج ساحل سے جو گزری تو کنارے ٹوٹے اہل دل سوچ رہے ہیں یہ بڑے کرب کے ساتھ ہم ہی زنجیر ہوئے دل بھی ہمارے ٹوٹے آج ہر ذہن میں روشن میں تفکر کے چراغ دل وہ شعلہ ہے کہ جس سے یہ شرارے ٹوٹے آپ نے جن پہ نظر کی وہی ذرے چمکے ہم جنہیں دیکھ رہے تھے وہ ستارے ...

    مزید پڑھیے

    تذکرہ ان کا ہی جو رنگ بدل جاتے ہیں

    تذکرہ ان کا ہی جو رنگ بدل جاتے ہیں بات سایوں کی نہیں سائے تو ڈھل جاتے ہیں آپ زحمت نہ کریں پرسش حال دل کی منہ سے نا گفتنی جملے بھی نکل جاتے ہیں اتنا خوش فہم نہ ہو اے دل پژمردہ کہ اب وہ شگوفے جو نہ کھل پائیں کچل جاتے ہیں کچھ دیے خون رگ جاں سے ہوئے ہیں روشن کچھ دیے تندیٔ صہبا سے بھی ...

    مزید پڑھیے

    کھو دیا ہم نے اعتبار اپنا

    کھو دیا ہم نے اعتبار اپنا بس یہیں تک تھا اختیار اپنا داغ دل جل اٹھے جو گل مہکے رنگ دکھلا گئی بہار اپنا جانے کس کس کے منتظر ٹھہرے صرف ہم کو تھا انتظار اپنا آنکھیں دل کی سفیر ہوں شاید آپ دیکھیں تو شاہکار اپنا

    مزید پڑھیے

    جہاں سراب نہیں تھی وہاں سراب ملے

    جہاں سراب نہیں تھی وہاں سراب ملے حقیقتوں کو ٹٹولا گیا تو خواب ملے ہر ایک سمت سے آواز بازگشت آئی اس آرزو میں پکارا تھا کچھ جواب ملے ہمیں بہار کے آثار کی توقع تھی رخ چمن پہ نشانات انقلاب ملے کہانیوں کی کتابوں میں اب ملیں تو ملیں وہ خوش نظر جنہیں ذروں میں آفتاب ملے

    مزید پڑھیے

    یہاں درخت تھے سایہ تھا کچھ دنوں پہلے

    یہاں درخت تھے سایہ تھا کچھ دنوں پہلے عجیب خواب سا دیکھا تھا کچھ دنوں پہلے یہ کیا ہوا کہ اب اپنا بھی اعتبار نہیں ہمیں تو سب کا بھروسا تھا کچھ دنوں پہلے ہمارے خون رگ جاں کی لالہ کاری سے جو آج باغ ہے صحرا تھا کچھ دنوں پہلے اسی افق سے نیا آفتاب ابھرے گا جہاں چراغ جلایا تھا کچھ دنوں ...

    مزید پڑھیے

    ذہن اور دل میں فاصلا ہی رہا

    ذہن اور دل میں فاصلا ہی رہا وقت زخموں سے کھیلتا ہی رہا عمر بھر احتیاط کے با وصف ہم پہ الزام کم نگاہی رہا ہم جسے درد آشنا سمجھے عمر بھر صورت آشنا ہی رہا خط ابیض نظر کا دھوکا تھا شب کا انجام تو سیاہی رہا

    مزید پڑھیے