Saeed Rahi

سعید راہی

سعید راہی کی غزل

    غم سود و زیاں سے خود کو جو آزاد رکھتا ہے

    غم سود و زیاں سے خود کو جو آزاد رکھتا ہے کوئی موسم بھی ہو دل کو ہمیشہ شاد رکھتا ہے کوئی بھی حال ہو شکوے گلے کرتا ہے جو سب سے کبھی ہونٹوں پہ نالے اور کبھی فریاد رکھتا ہے ذرا سی چوک پر تنقید کی قینچی چلانے کو مرے شعروں پہ نظریں گاڑ کے نقاد رکھتا ہے کسی پیاسے کو پانی سے کبھی محروم ...

    مزید پڑھیے

    اتنا تو ہوا اے دل اک شخص کے جانے سے

    اتنا تو ہوا اے دل اک شخص کے جانے سے بچھڑے ہوئے ملتے ہیں کچھ دوست پرانے سے اک آگ ہے جنگل کی رسوائی کا چرچا ہے دشمن بھی چلے آئے ملنے کے بہانے سے اب میرا سفر تنہا اب اس کی جدا منزل پوچھو نہ پتہ اس کا تم میرے ٹھکانے سے روشن ہوئے ویرانے خوش ہو گئی دنیا بھی کچھ ہم بھی سکوں سے ہیں گھر ...

    مزید پڑھیے

    یہ حقیقت ہے کہ ہوتا ہے اثر باتوں میں

    یہ حقیقت ہے کہ ہوتا ہے اثر باتوں میں تم بھی کھل جاؤ گے دو چار ملاقاتوں میں تم سے صدیوں کی وفاؤں کا کوئی ناطہ تھا تم سے ملنے کی لکیریں تھی مرے ہاتھوں میں تیرے وعدوں نے ہمیں گھر سے نکلنے نہ دیا لوگ موسم کا مزہ لے گئے برساتوں میں اب نہ سورج نہ ستارہ ہے نہ شمع ہے نہ چاند اپنے زخموں ...

    مزید پڑھیے

    اک برہنہ بولتا اظہار ہے

    اک برہنہ بولتا اظہار ہے میرا چہرہ صبح کا اخبار ہے آگے پیچھے چل رہا ہے دم بہ دم ایک میرا سایہ میرا یار ہے پاؤں کے نیچے ہے شعلوں کی زمیں اور سر پہ سوچ کی تلوار ہے بے لباسی پیراہن پہ خندہ زن بے حیائی ایک کاروبار ہے کس طرف کو جائے راہیؔ آدمی ہر قدم سرحد ہے یا دیوار ہے

    مزید پڑھیے

    میرے جیسے بن جاؤ گے جب عشق تمہیں ہو جائے گا

    میرے جیسے بن جاؤ گے جب عشق تمہیں ہو جائے گا دیواروں سے سر ٹکراؤگے جب عشق تمہیں ہو جائے گا ہر بات گوارا کر لو گے منت بھی اتارا کر لو گے تعویذیں بھی بندھواؤ گے جب عشق تمہیں ہو جائے گا تنہائی کے جھولے کھولیں گے ہر بات پرانی بھولیں گے آئینے سے تم گھبراؤگے جب عشق تمہیں ہو جائے گا جب ...

    مزید پڑھیے

    نہیں ہے یہ ترا کوچہ نہیں ہے

    نہیں ہے یہ ترا کوچہ نہیں ہے یہاں کوئی صدا دیتا نہیں ہے تجھے چھو کر اسے پہچان لیں گے اگر ہم نے خدا دیکھا نہیں ہے ذرا سوچو تو اس کی پیاس لوگو وہ بادل جو کہیں برسا نہیں ہے نئے چہرے لیے پھر آؤ یارو یہ دل پوری طرح ٹوٹا نہیں ہے غنیمت جان تو دو پل بھی راہیؔ وفا کا راستہ لمبا نہیں ہے

    مزید پڑھیے

    خنجر سے کرو بات نہ تلوار سے پوچھو

    خنجر سے کرو بات نہ تلوار سے پوچھو میں قتل ہوا کیسے مرے یار سے پوچھو فرض اپنا مسیحا نے ادا کر دیا لیکن کس طرح کٹی رات یہ بیمار سے پوچھو کچھ بھول ہوئی ہے تو سزا بھی کوئی ہوگی سب کچھ میں بتا دوں گا ذرا پیار سے پوچھو آنکھوں نے تو چپ رہ کے بھی روداد سنا دی کیوں کھل نہ سکے یہ لب اظہار ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ سے آنکھ ملا بات بناتا کیوں ہے

    آنکھ سے آنکھ ملا بات بناتا کیوں ہے تو اگر مجھ سے خفا ہے تو چھپاتا کیوں ہے غیر لگتا ہے نہ اپنوں کی طرح ملتا ہے تو زمانے کی طرح مجھ کو ستاتا کیوں ہے وقت کے ساتھ ہی حالات بدل جاتے ہیں یہ حقیقت ہے مگر مجھ کو سناتا کیوں ہے ایک مدت سے جہاں قافلے گزرے ہی نہیں ایسی راہوں پہ چراغوں کو ...

    مزید پڑھیے

    وہ انجمن میں رات عجب شان سے گئے

    وہ انجمن میں رات عجب شان سے گئے ایمان چیز کیا تھی کئی جان سے گئے میں تو گیا ہوا تھا ہزاروں نقاب میں لیکن اکیلا دیکھ کے پہچان سے گئے وہ شمع بن کے خود ہی اکیلے جلا کیا پروانے کل کی رات پریشان سے گئے آیا ترا سلام نہ آیا ہے خط کوئی ہم آخری سفر کے بھی سامان سے گئے راہیؔ جسے خدا بھی ...

    مزید پڑھیے

    کوئی پاس آیا سویرے سویرے

    کوئی پاس آیا سویرے سویرے مجھے آزمایا سویرے سویرے میری داستاں کو ذرا سا بدل کر مجھے ہی سنایا سویرے سویرے جو کہتا تھا کل شب سنبھلنا سنبھلنا وہی لڑکھڑایا سویرے سویرے کٹی رات ساری مری میکدے میں خدا یاد آیا سویرے سویرے

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2