Saeed Naqvi

سعید نقوی

نوجوان شاعر اور فکشن نویس۔ تہذیبی زوال کی کہانیاں لکھنے کے لیے معروف۔

Young poet and fiction writer; known for his stories underlining the problem of decadence in society.

سعید نقوی کی غزل

    میں دوست سے نہ کسی دشمنی سے ڈرتا ہوں

    میں دوست سے نہ کسی دشمنی سے ڈرتا ہوں بس اس زبان کی بے پردگی سے دبتا ہوں میں دور دور سے خود کو اٹھا کے لاتا رہا کہ ٹوٹ جاؤں تو پھر دور تک بکھرتا ہوں یہ سب اشارے مرے کام کیوں نہیں آتے یقیں کی مانگ کو رسم گماں سے بھرتا ہوں میں اتنی دور نکل آیا شہر ہستی سے خود اپنی ذات سے اکثر لپٹ کے ...

    مزید پڑھیے

    ساعت ہجر جب ستاتی ہے

    ساعت ہجر جب ستاتی ہے وقت کی نبض رک سی جاتی ہے چیزیں اپنی جگہ پہ رہتی ہیں تیرگی بس انہیں چھپاتی ہے شور میں جو صدائیں دب جائیں خامشی پھر وہی سناتی ہے دھوپ کی آنچ ہے جو رات گئے چاندنی بن کے مسکراتی ہے حسن شاید اسی کو کہتے ہیں جب نظر لوٹ لوٹ جاتی ہے وہ مری جیت تیرے نام سے تھی ہاں ...

    مزید پڑھیے

    رستے لپیٹ کر سبھی منزل پہ لائے ہیں

    رستے لپیٹ کر سبھی منزل پہ لائے ہیں کھوے سفر ہی باندھ کے ساحل پہ لائے ہیں پہلے تو ڈھونڈ ڈھانڈ کے لائے وجود کو اور پھر ہنکا کے ذات کو محمل پہ لائے ہیں اٹھتی ہے ہر فرات میں اک موج اضطراب جب بھی وہ کارواں رہ قاتل پہ لائے ہیں ساحل کی ریت سے کبھی جس کی بنی نہیں اس کو سمندروں کے مقابل ...

    مزید پڑھیے

    کیا ہے خود ہی گراں زیست کا سفر میں نے

    کیا ہے خود ہی گراں زیست کا سفر میں نے کتر لیے تھے کبھی اپنے بال و پر میں نے یوں اپنی ذات میں اب قید ہو کے بیٹھا ہوں خود اپنے گرد اٹھائے تھے بام و در میں نے بدل گئے خط و معنی کئی زبانوں کے جب اعتراف جنوں کر لیا ہنر میں نے تو میری تشنہ لبی پر سوال کرتا ہے سمندروں پہ بنایا تھا اپنا ...

    مزید پڑھیے

    ابتدا مجھ میں انتہا مجھ میں

    ابتدا مجھ میں انتہا مجھ میں اک مکمل ہے واقعہ مجھ میں بھول بیٹھا میں پیکر خاکی جب سے رہتا ہے اک خدا مجھ میں میں نے مٹی سے خود کو باندھ لیا جب بھری وقت نے ہوا مجھ میں میرے چاروں طرف ہے سناٹا ایسی گونجی ہے اک صدا مجھ میں میں نے اشکوں پہ بند کیا باندھا ایک سیلاب آ گیا مجھ میں میری ...

    مزید پڑھیے

    چاہے ہمارا ذکر کسی بھی زباں میں ہو

    چاہے ہمارا ذکر کسی بھی زباں میں ہو کچھ حسرتوں کی بات بھی رسم بیاں میں ہو آئے تو اس وقار سے اب کے عذاب ہجر شرمندہ یہ بہار بھی اب کے خزاں میں ہو رکھا ہے زندگی کو بھی ہر حال میں عزیز جب کہ عذاب زیست بھی اپنے گماں میں ہو نکلوں تری تلاش میں جب آسمان پر صدمہ مرے خیال کو دونوں جہاں میں ...

    مزید پڑھیے

    ورق ورق سے نیا اک جواب مانگوں میں

    ورق ورق سے نیا اک جواب مانگوں میں خود اپنی ذات پہ لکھی کتاب مانگوں میں یہ خود نوشت تو مجھ کو ادھوری لگتی ہے جو ہو سکے تو نیا انتساب مانگوں میں ہم اپنے شوق سے آئے نہ اپنی طرز جیے اس امتحاں میں نیا اک نصاب مانگوں میں وہ حق کی پیاس تھی دریا تو بس بہانہ تھا لب فرات پہ کس سے جواب ...

    مزید پڑھیے

    فصیل ذات میں در تو تری عنایت ہے

    فصیل ذات میں در تو تری عنایت ہے پر اس میں آمد وحشت مری اضافت ہے جب آئینے در و دیوار پر نکل آئیں تو شہر ذات میں رہنا بھی اک قیامت ہے میں اپنے سارے سوالوں کے جانتا ہوں جواب مرا سوال مرے ذہن کی شرارت ہے ذرا سی دیر تو موسم یہ آرزو کا رہے ابھی بھی قلب و جگر میں ذرا حرارت ہے میں اپنی ...

    مزید پڑھیے

    پہلے تو جستہ جستہ بھول گیا

    پہلے تو جستہ جستہ بھول گیا اور پھر سارا رستہ بھول گیا بن رہا تھا میں جال خوابوں کا باہر آنے کا رستہ بھول گیا شہر دل سے چلا گیا اک شخص آئینہ اک شکستہ بھول گیا ہاں خریدا تھا عشق کا سودا وہ تھا مہنگا کہ سستا بھول گیا مکتب عشق آ گیا ہوں میں دل ناداں کا بستہ بھول گیا حسن کی بارگاہ ...

    مزید پڑھیے