میں دوست سے نہ کسی دشمنی سے ڈرتا ہوں
میں دوست سے نہ کسی دشمنی سے ڈرتا ہوں بس اس زبان کی بے پردگی سے دبتا ہوں میں دور دور سے خود کو اٹھا کے لاتا رہا کہ ٹوٹ جاؤں تو پھر دور تک بکھرتا ہوں یہ سب اشارے مرے کام کیوں نہیں آتے یقیں کی مانگ کو رسم گماں سے بھرتا ہوں میں اتنی دور نکل آیا شہر ہستی سے خود اپنی ذات سے اکثر لپٹ کے ...