Saeed Ahmad

سعید احمد

سعید احمد کے تمام مواد

9 غزل (Ghazal)

    وہی خرابۂ امکاں وہی سفال قدیم

    وہی خرابۂ امکاں وہی سفال قدیم ہمک رہا ہے کہیں دل میں اک خیال قدیم کھڑا ہوں جیسے ابھی تک ازل کے زینے پر نظر میں ہے وہی نظارۂ جمال قدیم فراق رات میں زندہ رہے کہ زندہ تھی ہماری روح میں سرشارئ وصال قدیم مرا وجود حوالہ ترا ہوا آخر تو کھا گیا نا مجھے تو مرے سوال قدیم یہ حبس وقت یہ لا ...

    مزید پڑھیے

    ہونے کی اک جھلک سی دکھا کر چلا گیا

    ہونے کی اک جھلک سی دکھا کر چلا گیا کھولی تھی ہم نے آنکھ کہ منظر چلا گیا کیا خود کو دیکھنے کا عجب شوق تھا کہ وہ چپ چاپ اٹھ کے سوئے سمندر چلا گیا کن دائروں میں گھومتے ہیں اب خبر نہیں کیوں ہاتھ سے وہ چاک سا چکر چلا گیا پہلے قدم پہ ختم ہوا قصۂ جنوں پہلا قدم ہی دشت برابر چلا گیا ہم ...

    مزید پڑھیے

    حیرت پیہم ہوئے خواب سے مہماں ترے

    حیرت پیہم ہوئے خواب سے مہماں ترے رات چراغوں میں کیوں بجھ گئے امکاں ترے ایک قدم لغزشیں راہ میں آ کر ملیں روٹھ گئے تجھ سے پھر دشت و بیاباں ترے عشق کے اندھے خدا حسن کا رستہ دکھا در پہ ترے آ گئے بے سر و ساماں ترے نشہ تھا کیسا عجب خواب کہانی میں جب آنکھ تھی روشن مری نقش تھے عریاں ...

    مزید پڑھیے

    اک برگ خشک سے گل تازہ تک آ گئے

    اک برگ خشک سے گل تازہ تک آ گئے ہم شہر دل سے جسم کے صحرا تک آ گئے اس شام ڈوبنے کی تمنا نہیں رہی جس شام تیرے حسن کے دریا تک آ گئے کچھ لوگ ابتدائے رفاقت سے قبل ہی آئندہ کے ہر ایک گزشتہ تک آ گئے یہ کیا کہ تم سے راز محبت نہیں چھپا یہ کیا کہ تم بھی شوق تماشا تک آ گئے بیزارئ کمال سے اتنا ...

    مزید پڑھیے

    جب سماعت تری آواز تلک جاتی ہے

    جب سماعت تری آواز تلک جاتی ہے جانے کیوں پاؤں کی زنجیر چھنک جاتی ہے پھر اسی غار کے اسرار مجھے کھینچتے ہیں جس طرف شام کی سنسان سڑک جاتی ہے جانے کس قریۂ امکاں سے وہ لفظ آتا ہے جس کی خوشبو سے ہر اک سطر مہک جاتی ہے مو قلم خوں میں ڈبوتا ہے مصور شاید آنکھ کی پتلی سے تصویر چپک جاتی ...

    مزید پڑھیے

تمام

13 نظم (Nazm)

    ادھوری نسل کا پورا سچ

    عمر کا سورج سوا نیزے پہ آیا گرم شریانوں میں بہتے خون کا دریا بھنور ہونے لگا حلقۂ موج ہوا کافی نہیں وحشت ابر بدن کے واسطے آغوش کوئی اور ہو ورنہ یوں مردہ سڑک کے خواب آور سے کنارے بے خیالی میں کسی تھوکے ہوئے بچے کی الجھی سانس میں لپٹی ہوئی یہ زندگی! ذہن پر بار گراں بند قبا کے لمس کا ...

    مزید پڑھیے

    تضادوں سے عبارت

    دکھوں کے خیمے میں بیٹھ کر نارسا خوشی کی خوشی میں ہنسنا طویل و انجان ہجر کی خار زار پگڈنڈیوں پہ چلتے وصال لمحوں کی خوشبوؤں میں رچی کوئی نظم کہہ کے رونا حواس کی دسترس میں ہونا کبھی نہ ہونا انہیں تضادوں سے ذات کے ہاتھ کی لکیروں میں رمز معنی انہی پہ قائم مرے تفکر کے سلسلے سب کلام و ...

    مزید پڑھیے

    ڈوبتے سورج کی سرگوشی

    ڈھیر کر چیوں کے آنکھ میں ہیں لیکن آئنے کا نوحہ ہر کسی قلم کی دسترس سے باہر روشنی کے گھر میں تیرگی کا پتھر کس طرف سے آیا کون ہے وہ آخر جو پس تماشا مسکرا رہا ہے اک سوال ہوتی ہے زندگی نگر کی سرخیاں خبر کی کھوجتی ہے لیکن خواب کے سفر کی ساعتوں پہ قدغن سوچ رہن سر ہے نیند کی سحر جو قریۂ ...

    مزید پڑھیے

    زوال کے آئینے میں زندہ عکس

    جھٹپٹے کے شہر میں بیگانگی کی لہر میں معدوم ہوتی روشنی کے درمیاں زیست کے پاؤں تلے آئے ہوئے لوگ ہیں یا چیونٹیاں تن بدن کی رحل پر مہمل کتابیں زرد چہروں کی کھلیں منظروں کی کھوجتی بینائیاں معذور ہیں یاد رکھنے کی تمنا بھولنے کی آرزو حافظے کی بند مٹھی میں ٹھہرتا کچھ نہیں ہر قدم خواب و ...

    مزید پڑھیے

    معنی کی تلاش میں مرتے لفظ

    صحن میں پھیلی ہے تلخ تر رات کی رانی کی مہک کمرۂ حیرت میں خواب کی شہزادی بال بکھرائے مرے سینے پر کب سے اک خواب ابد میں گم ہے لمس کی آنکھوں میں قوس در قوس طلسمات عجب زندہ ہیں جھڑ چکا ہے لیکن جسم کی شاخ سے چہرے کا پھول زیست کے جوہڑ میں خواہش دریا کے ایک امر لمحے کو سوچنے کی یہ سزا کچھ ...

    مزید پڑھیے

تمام