سعید احمد اختر کی غزل

    تیری یادوں کو بلا کر ترے گیسو کی طرح

    تیری یادوں کو بلا کر ترے گیسو کی طرح پہنے رہتے ہیں دریچے مری خوشبو کی طرح ہائے جب ہجر کی شب میں ترے بوسوں کی مٹھاس پھیل جاتی ہے مرے ہونٹوں پہ جادو کی طرح تو مرے باغ سے توڑے ہوئے غنچے کی مثال میں ترے دشت میں بھٹکے ہوئے آہو کی طرح آسماں بانٹتا رہتا ہے نصیبے اخترؔ دن کو موتی کی طرح ...

    مزید پڑھیے

    عقل داخل ہو گئی ہے وہم کے میدان میں

    عقل داخل ہو گئی ہے وہم کے میدان میں آسماں بانی بھی ہے اب حلقۂ امکان میں عقل و دل کا سامنا تھا دیدۂ حیران میں میں کھڑا ساحل پہ تھا وہ حلقۂ؎ طوفان میں خلد سے دنیا میں آتے دم کہاں معلوم تھا رنج و غم سو باندھ رکھے ہیں مرے سامان میں دھند چھٹ جائے گی واعظ چار دن میں دیکھنا ڈوب جائیں ...

    مزید پڑھیے

    ہے قحط نہ طوفاں نہ کوئی خوف وبا کا

    ہے قحط نہ طوفاں نہ کوئی خوف وبا کا اس دیس پہ سایہ ہے کسی اور بلا کا ہر شام سسکتی ہوئی فریاد کی وادی ہر صبح سلگتا ہوا صحرا ہے صدا کا اپنا تو نہیں تھا میں کبھی اور غموں نے مارا مجھے ایسا رہا تیرا نہ خدا کا پھیلے ہوئے ہر سمت جہاں حرص و ہوس ہوں پھولے گا پھلے گا وہاں کیا پیڑ وفا ...

    مزید پڑھیے

    صرف ان کے کوچے میں جاں بچھا کے چلتے ہیں

    صرف ان کے کوچے میں جاں بچھا کے چلتے ہیں ورنہ چاہنے والے سر اٹھا کے چلتے ہیں کیا گنہ ہوا ان سے کیوں تری گلی کے لوگ اپنے گھر کے اندر بھی منہ چھپا کے چلتے ہیں ہاں خدا بھی ہو شاید کوئی اپنی بستی کا حکم اس جگہ سارے ناخدا کے چلتے ہیں زخم بھی نہیں لگتے خون بھی نہیں بہتا تیر اس کی محفل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2