سعید احمد اختر کی غزل

    بت کیا ہیں بشر کیا ہے یہ سب سلسلہ کیا ہے

    بت کیا ہیں بشر کیا ہے یہ سب سلسلہ کیا ہے پھر میں ہوں مرا دل ہے مری غار حرا ہے جو آنکھوں کے آگے ہے یقیں ہے کہ گماں ہے جو آنکھوں سے اوجھل ہے خلا ہے کہ خدا ہے تارے مری قسمت ہیں کہ جلتے ہوئے پتھر دنیا مری جنت ہے کہ شیطاں کی سزا ہے دل دشمن جاں ہے تو خرد قاتل ایماں یہ کیسی بلاؤں کو مجھے ...

    مزید پڑھیے

    عمر بھر خون سے لکھا ہے جس افسانے کو

    عمر بھر خون سے لکھا ہے جس افسانے کو کتنا کم رنگ ہے اس شوخ کے نذرانے کو کھلتی رہتی ہیں ترے پیار کی کلیاں ہر سو باغ نیلام نہ کر دیں مرے ویرانے کو مے سے رغبت تو مجھے بھی ہے مگر بس اتنی ناچتے دیکھ لیا دور سے پیمانے کو اور مرتا کہیں جا کر ترے در سے لیکن ہوش اتنا بھی کہاں تھا ترے ...

    مزید پڑھیے

    جب چاروں اور اندھیرا تھا سچ کم تھا جھوٹ گھنیرا تھا (ردیف .. ے)

    جب چاروں اور اندھیرا تھا سچ کم تھا جھوٹ گھنیرا تھا دریا سے بڑے اک شخص کا اک دریا کے کنارے ڈیرا تھا وہ تھا کچھ اس کے بچے تھے کچھ ساتھ تھے اور کچھ گھر والے آئینے سے کورے دل والے کہسار سے اونچے سر والے یہ لوگ وفا کے حامی تھے ناموس و حیا کے حامی تھے بس ایک رسول کے قائل بس ایک خدا کے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ حقیقت تو ہوا کرتی تھی انسانوں میں

    کچھ حقیقت تو ہوا کرتی تھی انسانوں میں وہ بھی باقی نہیں اس دور کے انسانوں میں وقت کا سیل بہا لے گیا سب کچھ ورنہ پیار کے ڈھیر لگے تھے مرے گل دانوں میں شاخ سے کٹنے کا غم ان کو بہت تھا لیکن پھول مجبور تھے ہنستے رہے گل دانوں میں ان کی پہچان کی قیمت تو ادا کرنی تھی جانتا ہے کوئی اپنوں ...

    مزید پڑھیے

    یہ حادثہ بھی تو کچھ کم نہ تھا صبا کے لیے

    یہ حادثہ بھی تو کچھ کم نہ تھا صبا کے لیے گلوں نے کس لیے بوسے تری قبا کے لیے وہاں زمین پر ان کا قدم نہیں پڑتا یہاں ترستے ہیں ہم لوگ نقش پا کے لیے تم اپنی زلف بکھیرو کہ آسماں کو بھی بہانہ چاہئے محشر کے التوا کے لیے یہ کس نے پیار کی شمعوں کو بد دعا دی ہے اجاڑ راہوں میں جلتی رہیں سدا ...

    مزید پڑھیے

    ہر گل سے ہر خار سے الجھا رہتا ہے

    ہر گل سے ہر خار سے الجھا رہتا ہے دل ہے اپنے یار سے الجھا رہتا ہے پھول خفا رہتے ہیں اپنی شاخوں سے در اپنی دیوار سے الجھا رہتا ہے میری جوانی کا ساتھی مرا آئینہ چاندی کے ہر تار سے الجھا رہتا ہے جانے میرا شاعر بیٹا کیوں اکثر دادا کی تلوار سے الجھا رہتا ہے لوگ تو آخر لوگ ہیں ان سے ...

    مزید پڑھیے

    یہ صدمہ اس کو پاگل کر گیا تھا

    یہ صدمہ اس کو پاگل کر گیا تھا وہ اپنے آئنے سے ڈر گیا تھا کوئی بھی سر نہیں تھا اس کے قابل عبث اس شہر میں پتھر گیا تھا جہالت کے حوالے پڑھتے پڑھتے کتابوں سے مرا جی بھر گیا تھا پلاتا کون اس پیاسے کو پانی کوئی مسجد کوئی مندر گیا تھا وہ کس مٹی کا تھا نفرت کے گھر میں وہ اوڑھے پیار کی ...

    مزید پڑھیے

    پھینکے ہوئے بے کار کھلونے کی طرح ہوں

    پھینکے ہوئے بے کار کھلونے کی طرح ہوں میں باغ کے اجڑے ہوئے گوشے کی طرح ہوں تو دل میں اترتی ہوئی خوشبو کی طرح ہے میں جسم سے اترے ہوئے کپڑے کی طرح ہوں کچھ اور بھی دن مجھ کو سمجھنے میں لگیں گے میں خواب میں دیکھے ہوئے رستے کی طرح ہوں سایہ سا یہ کس چیز کا ہے میرے وطن پر میں کیوں کسی ...

    مزید پڑھیے

    کل تک جو دل غرور جلال و جمال تھا

    کل تک جو دل غرور جلال و جمال تھا آج ان کے راستے میں پڑا پائمال تھا زنجیر تھی کہیں نہ کہیں کوئی جال تھا لیکن تری فضا سے نکلنا محال تھا تھا تیر ان کے پاس وہی ایک بے نظیر اور زخم جو لگا وہ بھی اپنی مثال تھا اس نے بھلا کہا کہ برا اس کی خیر ہو میں سن کے چپ رہا تو یہ میرا کمال تھا چپ ...

    مزید پڑھیے

    کیوں جیب میں ملا مری تقدیر لیے ہے

    کیوں جیب میں ملا مری تقدیر لیے ہے کیوں راہ کا ہر موڑ کوئی پیر لیے ہے کرتا ہے شب و روز جو سرکار کی تعریف یہ شخص بھی شاید کوئی جاگیر لیے ہے سر ایک بھی میں نے یہاں اونچا نہیں دیکھا پاگل ہے جو اب ہاتھ میں شمشیر لیے ہے ہر پیڑ سے آتی ہے مرے دوست کی خوشبو ہر پھول مرے شوخ کی تصویر لیے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2