کس منہ سے زندگی کو وہ رخشندہ کہہ سکیں
کس منہ سے زندگی کو وہ رخشندہ کہہ سکیں جو مہر و ماہ کو بھی نہ تابندہ کہہ سکیں وہ دن بھی ہوں غبار چھٹیں آندھیاں ہٹیں اور گل کو رنگ و بو کا نمائندہ کہہ سکیں تازہ رکھیں سدا خلش زخم کو کہ ہم جو اب نہ کہہ سکے کبھی آئندہ کہہ سکیں زنداں میں کوئی روزن زنداں تو ہو کہ لوگ جس حال میں بھی ...