Sadiq

صادق

ممتاز جدید نقاد، مترجم اور شاعر۔ مراٹھی اور ہندی شاعری کے تراجم کے لیے معروف، دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ۔

صادق کی نظم

    زہر باد

    ایشور کی ہتیا کرنے کے بعد ایک بے کوہان لنگڑے اونٹ پر ہر اجالا اور اندھیرا پھاندتا سور منڈل کے مروستھل میں ہراساں بھاگتا ہوں میرے پیچھے آنے والا چیختے چنگھاڑتے بچھڑے گجوں کا غول مجھ کو زد سے باہر دیکھ واپس جا رہا ہے اور مقتول ایشور کی آتما کی وش بجھی کچھ سوئیاں سی روم چھدروں میں ...

    مزید پڑھیے

    سیڑھیاں

    سیڑھیاں سیڑھیاں اک ہتھیلی سے دیوار تک اور دیوار سے گیلے آکاش تک دیکھتے دیکھتے جم سے نعش تک اب تو اکتا گئیں ریڑھ کی ہڈیاں پھر بھی ان سیڑھیوں سے گزرتی چلی جا رہی ہیں کئی پیڑھیاں

    مزید پڑھیے

    اور کچھ چارہ نہیں

    مانس کی فصلیں جواں ہو کر پریشاں ہو گئی ہیں ہوا کی سلطنت میں ہلتے رہنے کے علاوہ اور کچھ چارہ نہیں ہے کر کے تخلیق بتا دو لوگو مانس کے پیڑ لگا دو لوگو چھین لو ساری چمک ہاتھوں سے اور پھر ان میں عصا دو لوگو جب بھی طوفاں کوئی اٹھنا چاہے ریت میں اس کو دبا دو لوگو تنگ تہہ خانوں سے باہر ...

    مزید پڑھیے

    الفاظ کی ولادت

    اس نے رمتے جوگی کے آگے روٹیاں رکھ دیں اور بہتے پانی کے سامنے ایک دیوار کھڑی کر کے فاتحانہ انداز میں کہا: دیکھو! میں نے دونوں کو روک دیا ہے اور اب تمہاری باری ہے یہ کہہ کر اس نے میرے تمام رنگ کیچڑ میں الٹ دیے میں نے دوڑ کر قلم اٹھانا چاہا لیکن اس نے میرے ہاتھوں کے پہونچے اتروا ...

    مزید پڑھیے

    عذابوں کا شہر

    یہ عذابوں کا شہر ہے یہاں خود کو بچانے کے تمام حربے بے کار ثابت ہوتے ہیں جب تم سو رہے ہوگے کوئی تمہاری ٹانگیں چرا لے جائے گا اور جب تم اپنے پڑوسی سے ٹانگیں ادھار لے کر پولس تھانے رپورٹ لکھوانے کے لیے پہنچو گے تو تھانے دار رشوت میں تمہاری آنکھوں کا مطالبہ کرے گا جن کے دینے سے انکار ...

    مزید پڑھیے

    ایک بار پھر

    ایک بار پھر فقیروں کا بھیس لیے میرے در پر عیار آ کھڑے ہوئے ہیں یہ وہی تو ہیں جو ایک بار پہلے مجھ سے میرا نقش لے کر ہاتھوں میں تھما گئے تھے جنت کا ایک حسین ٹکڑا جو ان کے جاتے ہی دوزخ بن گیا تھا چند سال بعد وہ مجھ سے ایک اور نقش لے کر اس کے بدلے دے گئے تھے ایک سمندر جو اس دوزخ کو بجھا ...

    مزید پڑھیے

    ایک پرانی نظم

    کچھ نہیں جانتا کس طرح آ گیا میں ہوا کے بھیانک طلسمات میں کوکھ سے جن کی تولید پاتے ہیں بالشتیے روز و شب ہر گھڑی مجھ میں در آتے ہیں بے اجازت کھلی دیکھ کر کھڑکیاں اور در موت اور زندگی ان کا ایک کھیل ہے کیونکہ ہر ایک بالشتیہ موت سے قبل جاں سونپ جاتا ہے اپنے کسی جانشیں (دوسرے) کو دوسرا ...

    مزید پڑھیے

    فرجام

    تم مری کھوج میں یوں ہی تاریک غاروں مٹھوں معبدوں خانقاہوں میں گھٹ گھٹ کے مر جاؤ گے میں نہیں مل سکوں گا تمہیں اب کبھی دھرم میں سنگھ میں دھیان میں گیان میں نیلے ساگر کی تہہ میں اتر کر برازیل کے جنگلوں میں بھٹک کر ہمالہ کی چوٹی پہ چڑھ کر مجھے تم نہ آواز دو پاس کو تیاگ کر آس کے بام ...

    مزید پڑھیے

    الفاظ الفاظ ہی ہیں

    سارے الفاظ الفاظ الفاظ الفاظ الفاظ ہی ہیں دھویں سے لکھے اک بیاباں کے اندھ کار کے درمیاں بیاباں کے اندھ کاری کے درمیاں نیند کی نیلی نیلی سرنگیں کہاں کہاں کوئی ہمسائیگی خون کی سر خوشی دھرم اخلاق تہذیب انسانیت راج نیتی محبت سماج اور جمہوریت نیایے دستور رشتے دوست بھائی بہن باپ ...

    مزید پڑھیے

    انہیں کہہ دو

    سیڑھیاں چڑھتی ہوئی نبضوں کو روکو اوپری منزل پہ گھبرایا ہوا اک حافظہ تشکیک کے محور پہ کل شب سے مسلسل گھومتا ہے اس سے ناواقف نہیں ہم تم مگر پانی کی شاخوں میں پھنسے الفاظ دھرتی پر نہیں گرتے انہیں کہہ دو کہ بچپن سے الجھ کر جب بھی آنکھوں کے کنارے ریت کا کوئی گھروندا ٹوٹ جاتا ہے تو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2