Sadiq

صادق

ممتاز جدید نقاد، مترجم اور شاعر۔ مراٹھی اور ہندی شاعری کے تراجم کے لیے معروف، دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ۔

صادق کے تمام مواد

9 غزل (Ghazal)

    پھر سے لہو لہو در و دیوار دیکھ لے

    پھر سے لہو لہو در و دیوار دیکھ لے جو بھی دکھائے وقت وہ ناچار دیکھ لے اپنے گلے پہ چلتی چھری کا بھی دھیان رکھ وہ تیز ہے یا کند ذرا دھار دیکھ لے پھر چھوٹنے سے پہلے ہی اپنے وجود کو موجود بچپنوں میں گرفتار دیکھ لے گھستا چلا ہے پیٹ میں ہر آدمی کا سر تجھ سے بھی ہو سکے گا نہ انکار دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    وہ چیر کے آکاش زمیں پر اتر آیا

    وہ چیر کے آکاش زمیں پر اتر آیا جلتا ہوا سورج مری آنکھوں میں در آیا لہروں نے کئی بار مرے در پہ دی دستک پھر ساتھ مجھے لینے سمندر ادھر آیا وہ زیست کے اس پار کی تھاہ لینے گیا تھا پر لوٹ کے اب تک نہ مرا ہم سفر آیا فرصت ہو تو یہ جسم بھی مٹی میں دبا دو لو پھر میں زماں اور مکاں سے ادھر ...

    مزید پڑھیے

    جسم پر کھردری سی چھال اگا

    جسم پر کھردری سی چھال اگا آنکھ کی پتلیوں میں بال اگا تیر برسا ہی چاہتے ہیں سنبھل اپنے ہاتھوں میں ایک ڈھال اگا کاٹ آگاہیوں کی فصل مگر ذہن میں کچھ نئے سوال اگا دوش و فردا کو ڈال گڈھے میں کھاد سے ان کی روز حال اگا بڑھی جاتی ہیں مانس کی فصلیں ان زمینوں پہ کچھ اکال اگا چکھ چکا ...

    مزید پڑھیے

    وہ ایک چہرہ جو اس سے گریز کر جاتا

    وہ ایک چہرہ جو اس سے گریز کر جاتا تو آئینہ اسی دم ٹوٹ کر بکھر جاتا نہ جانے کیسے بنی وہ زبان پتھر کی وگرنہ ہم پہ قیامت سا کچھ گزر جاتا اٹھا ہی لایا سبھی راستے وہ کاندھوں پر یقین اس پہ نہ کرتا تو میں کدھر جاتا دھنک کے رنگ اسی نے کھرچ لیے تھے مگر جو ہم نہ دیکھتے اس بار بھی مگر ...

    مزید پڑھیے

    منہ آنسوؤں سے اپنا عبث دھو رہے ہو کیوں

    منہ آنسوؤں سے اپنا عبث دھو رہے ہو کیوں ہنستے جہان بیچ کھڑے رو رہے ہو کیوں آ جاؤ اپنے مکھ سے مکھوٹا اتار کر! بہروپیوں کے ساتھ سمے کھو رہے ہو کیوں کیا اس سے ہوگا روح کے زخموں کو فائدہ ٹوٹے دلوں کی سن کے صدا رو رہے ہو کیوں اس گھومتی زمین کا محور ہی توڑ دو بے کار گردشوں پہ خفا ہو رہے ...

    مزید پڑھیے

تمام

12 نظم (Nazm)

    زہر باد

    ایشور کی ہتیا کرنے کے بعد ایک بے کوہان لنگڑے اونٹ پر ہر اجالا اور اندھیرا پھاندتا سور منڈل کے مروستھل میں ہراساں بھاگتا ہوں میرے پیچھے آنے والا چیختے چنگھاڑتے بچھڑے گجوں کا غول مجھ کو زد سے باہر دیکھ واپس جا رہا ہے اور مقتول ایشور کی آتما کی وش بجھی کچھ سوئیاں سی روم چھدروں میں ...

    مزید پڑھیے

    سیڑھیاں

    سیڑھیاں سیڑھیاں اک ہتھیلی سے دیوار تک اور دیوار سے گیلے آکاش تک دیکھتے دیکھتے جم سے نعش تک اب تو اکتا گئیں ریڑھ کی ہڈیاں پھر بھی ان سیڑھیوں سے گزرتی چلی جا رہی ہیں کئی پیڑھیاں

    مزید پڑھیے

    اور کچھ چارہ نہیں

    مانس کی فصلیں جواں ہو کر پریشاں ہو گئی ہیں ہوا کی سلطنت میں ہلتے رہنے کے علاوہ اور کچھ چارہ نہیں ہے کر کے تخلیق بتا دو لوگو مانس کے پیڑ لگا دو لوگو چھین لو ساری چمک ہاتھوں سے اور پھر ان میں عصا دو لوگو جب بھی طوفاں کوئی اٹھنا چاہے ریت میں اس کو دبا دو لوگو تنگ تہہ خانوں سے باہر ...

    مزید پڑھیے

    الفاظ کی ولادت

    اس نے رمتے جوگی کے آگے روٹیاں رکھ دیں اور بہتے پانی کے سامنے ایک دیوار کھڑی کر کے فاتحانہ انداز میں کہا: دیکھو! میں نے دونوں کو روک دیا ہے اور اب تمہاری باری ہے یہ کہہ کر اس نے میرے تمام رنگ کیچڑ میں الٹ دیے میں نے دوڑ کر قلم اٹھانا چاہا لیکن اس نے میرے ہاتھوں کے پہونچے اتروا ...

    مزید پڑھیے

    عذابوں کا شہر

    یہ عذابوں کا شہر ہے یہاں خود کو بچانے کے تمام حربے بے کار ثابت ہوتے ہیں جب تم سو رہے ہوگے کوئی تمہاری ٹانگیں چرا لے جائے گا اور جب تم اپنے پڑوسی سے ٹانگیں ادھار لے کر پولس تھانے رپورٹ لکھوانے کے لیے پہنچو گے تو تھانے دار رشوت میں تمہاری آنکھوں کا مطالبہ کرے گا جن کے دینے سے انکار ...

    مزید پڑھیے

تمام