Sadiq

صادق

ممتاز جدید نقاد، مترجم اور شاعر۔ مراٹھی اور ہندی شاعری کے تراجم کے لیے معروف، دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ۔

صادق کی غزل

    پھر سے لہو لہو در و دیوار دیکھ لے

    پھر سے لہو لہو در و دیوار دیکھ لے جو بھی دکھائے وقت وہ ناچار دیکھ لے اپنے گلے پہ چلتی چھری کا بھی دھیان رکھ وہ تیز ہے یا کند ذرا دھار دیکھ لے پھر چھوٹنے سے پہلے ہی اپنے وجود کو موجود بچپنوں میں گرفتار دیکھ لے گھستا چلا ہے پیٹ میں ہر آدمی کا سر تجھ سے بھی ہو سکے گا نہ انکار دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    وہ چیر کے آکاش زمیں پر اتر آیا

    وہ چیر کے آکاش زمیں پر اتر آیا جلتا ہوا سورج مری آنکھوں میں در آیا لہروں نے کئی بار مرے در پہ دی دستک پھر ساتھ مجھے لینے سمندر ادھر آیا وہ زیست کے اس پار کی تھاہ لینے گیا تھا پر لوٹ کے اب تک نہ مرا ہم سفر آیا فرصت ہو تو یہ جسم بھی مٹی میں دبا دو لو پھر میں زماں اور مکاں سے ادھر ...

    مزید پڑھیے

    جسم پر کھردری سی چھال اگا

    جسم پر کھردری سی چھال اگا آنکھ کی پتلیوں میں بال اگا تیر برسا ہی چاہتے ہیں سنبھل اپنے ہاتھوں میں ایک ڈھال اگا کاٹ آگاہیوں کی فصل مگر ذہن میں کچھ نئے سوال اگا دوش و فردا کو ڈال گڈھے میں کھاد سے ان کی روز حال اگا بڑھی جاتی ہیں مانس کی فصلیں ان زمینوں پہ کچھ اکال اگا چکھ چکا ...

    مزید پڑھیے

    وہ ایک چہرہ جو اس سے گریز کر جاتا

    وہ ایک چہرہ جو اس سے گریز کر جاتا تو آئینہ اسی دم ٹوٹ کر بکھر جاتا نہ جانے کیسے بنی وہ زبان پتھر کی وگرنہ ہم پہ قیامت سا کچھ گزر جاتا اٹھا ہی لایا سبھی راستے وہ کاندھوں پر یقین اس پہ نہ کرتا تو میں کدھر جاتا دھنک کے رنگ اسی نے کھرچ لیے تھے مگر جو ہم نہ دیکھتے اس بار بھی مگر ...

    مزید پڑھیے

    منہ آنسوؤں سے اپنا عبث دھو رہے ہو کیوں

    منہ آنسوؤں سے اپنا عبث دھو رہے ہو کیوں ہنستے جہان بیچ کھڑے رو رہے ہو کیوں آ جاؤ اپنے مکھ سے مکھوٹا اتار کر! بہروپیوں کے ساتھ سمے کھو رہے ہو کیوں کیا اس سے ہوگا روح کے زخموں کو فائدہ ٹوٹے دلوں کی سن کے صدا رو رہے ہو کیوں اس گھومتی زمین کا محور ہی توڑ دو بے کار گردشوں پہ خفا ہو رہے ...

    مزید پڑھیے

    بستر بچھا کے رات وہ کمرے میں سو گیا

    بستر بچھا کے رات وہ کمرے میں سو گیا سبزہ پہ موسموں کا لہو خشک ہو گیا گم نام دن کی پچھلی قطاروں کا فاصلہ آواز کی حدوں سے بہت دور ہو گیا بائیں طرف کے راستے سانسوں میں بٹ گئے اگلے قدم کی چاپ پہ وہ خون رو گیا سورج کا ظلم سر کو جھلستا رہا مگر دن دھوپ کے اتھاہ سمندر کو ڈھو گیا سڑکوں ...

    مزید پڑھیے

    گرچہ سہل نہیں لیکن تیرے کہنے پر لاؤں گا

    گرچہ سہل نہیں لیکن تیرے کہنے پر لاؤں گا کاٹ کے اپنے ہاتھوں میں اب اپنا ہی سر لاؤں گا جس میں ہوں تیار کھڑی ہر سمت سرابوں کی فصلیں اپنے کندھوں پر وہ ریگستان اٹھا کر لاؤں گا قوس قزح کے رنگوں سے تیار کروں گا نقش نیا رہ جاؤ انگشت بدنداں ایسا منظر لاؤں گا ان کی یاد میں بہتے آنسو خشک ...

    مزید پڑھیے

    دروازے کو پیٹ رہا ہوں پیہم چیخ رہا ہوں

    دروازے کو پیٹ رہا ہوں پیہم چیخ رہا ہوں اندر آ کر کھل جا سم سم کہنا بھول گیا ہوں کھوج میں تیری ان گن ٹرامیں اور بسیں چھانی ہیں کولتار کی سڑکوں پر میلوں پیدل گھوما ہوں بے پایاں آکاش کے مقناطیسی جال سے بچ کر خوف زدہ سا میں دھرتی کے سینے سے چمٹا ہوں برسوں پہلے بکھر گئی تھی ٹوٹ کے جو ...

    مزید پڑھیے

    پلنگ پر جو کتاب و سنان رکھ دے گا

    پلنگ پر جو کتاب و سنان رکھ دے گا نئے سفر کے لیے کچھ نشان رکھ دے گا نشانہ باندھے گا وہ پشت پر مگر جوں ہی پلٹ کے دیکھو گے ہنس کر کمان رکھ دے گا خود اس کی ذات ابھی گولیوں کی زد پر ہے وہ کیسے شہر میں امن و امان رکھ دے گا بگڑ گیا تو جنونی لہو بھی پی لے گا جو خوش ہوا تو وہ قدموں پہ جان رکھ ...

    مزید پڑھیے