صابر کی غزل

    مجھے قرار بھنور میں اسے کنارے میں

    مجھے قرار بھنور میں اسے کنارے میں سو کتنی دور تلک بہتے ایک دھارے میں مجھے بھی پڑ گئی عادت دروغ گوئی کی وہ مجھ سے پوچھتا رہتا تھا میرے بارے میں یہ کاروبار محبت ہے تم نہ سمجھوگے ہوا ہے مجھ کو بہت فائدہ خسارے میں کہاں رہا وہ گمان اب کہ ہیں زمانہ شناس الجھ کے رہ گئے ذو معنی اک ...

    مزید پڑھیے

    وہ اور ہوں گے نفوس بے دل جو کہکشائیں شمارتے ہیں

    وہ اور ہوں گے نفوس بے دل جو کہکشائیں شمارتے ہیں یہ رات ہے پورے چاند کی ہم تری محبت حصارتے ہیں بڑی مہارت سے اس کی سانسوں میں نغمگی کر رہے ہیں پیدا وہ جتنا انجان بن رہا ہے ہم اتنا اس کو نہارتے ہیں تمہاری نظروں کا ہے مقدر یہ جھیل کا پر سکون پانی ہم اپنی آنکھوں کے کینوس پر ہزار موجیں ...

    مزید پڑھیے

    آہستہ بولیے گا تماشا کھڑا نہ ہو

    آہستہ بولیے گا تماشا کھڑا نہ ہو بیرون خواب کوئی ہمیں سن رہا نہ ہو دیواریں اٹھ گئی نہ ہوں دشت جنون میں رم خوردہ وہ غزال کہیں گمشدہ نہ ہو رخت سفر میں باندھ لیں پر شور کچھ بھنور دریا ہے پر سکون سفر بے مزہ نہ ہو یوں تو وہ ایک عام سا پتھر ہے میل کا لیکن وہاں سے آگے اگر راستہ نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2