صابر کی غزل

    نیا سورج نیا دریا نئی کشتی بناتے ہیں

    نیا سورج نیا دریا نئی کشتی بناتے ہیں نئی تصویر میں دنیا ذرا میلی بناتے ہیں ذرا سا کیوٹ کر دیتے ہیں اندیشوں کے بھوتوں کو مگر امید کی پریاں ذرا اگلی بناتے ہیں مکمل سوچ لیتے ہیں چلو اس بار پھر تجھ کو چلو اس بار بھی صورت تری آدھی بناتے ہیں یقینی بات ہے باطن کی تاریکی نہ کم ...

    مزید پڑھیے

    ہماری بے چینی اس کی پلکیں بھگو گئی ہے

    ہماری بے چینی اس کی پلکیں بھگو گئی ہے یہ رات یوں بن رہی ہے جیسے کہ سو گئی ہے دیے تھے کالی گھٹا کو ہم نے ادھار آنسو کسے کہیں اب کہ ساری پونجی ڈبو گئی ہے ہم اس کی خاطر بچا نہ پائیں گے عمر اپنی فضول خرچی کی ہم کو عادت سی ہو گئی ہے وہ ایک ساحل کہ جس پہ تم خود کو ڈھونڈتے ہو وہیں پہ اک ...

    مزید پڑھیے

    مستقر کی خواہش میں منتشر سے رہتے ہیں

    مستقر کی خواہش میں منتشر سے رہتے ہیں بے کنار دریا میں لفظ لفظ بہتے ہیں سب الٹ پلٹ دی ہیں صرف و نحو دیرینہ زخم زخم جیتے ہیں لمحہ لمحہ سہتے ہیں یار لوگ کہتے ہیں خواب کا مزار اس کو از رہ روایت ہم خواب گاہ کہتے ہیں روشنی کی کرنیں ہیں یا لہو اندھیرے کا سرخ رنگ قطرے جو روزنوں سے بہتے ...

    مزید پڑھیے

    خوبیوں کو مسخ کر کے عیب جیسا کر دیا

    خوبیوں کو مسخ کر کے عیب جیسا کر دیا ہم نے یوں عیبوں کی آبادی کو دونا کر دیا طے تو یہ تھا ہر بدی کی انتہا تک جائیں گے بے خیالی میں یہ کیسا کام اچھا کر دیا مجھ سے کل محفل میں اس نے مسکرا کر بات کی وہ مرا ہو ہی نہیں سکتا یہ پکا کر دیا چلچلاتی دھوپ تھی لیکن تھا سایہ ہم قدم سائباں کی ...

    مزید پڑھیے

    سچ یہی ہے کہ بہت آج گھن آتی ہے مجھے

    سچ یہی ہے کہ بہت آج گھن آتی ہے مجھے ویسے وہ شے کبھی مطلوب رہی بھی ہے مجھے اپنی تنہائی کو بازار گھما لایا ہوں گھر کی چوکھٹ پہ پہنچتے ہی لپٹتی ہے مجھے تجھ سے ملتا ہوں تو آ جاتی ہے آنکھوں میں نمی تو سمجھتا ہے شکایت یہ پرانی ہے مجھے اس کے شر سے میں سدا مانگتا رہتا ہوں پناہ اسی دنیا ...

    مزید پڑھیے

    اخیر شب سرد راکھ چولھے کی جھاڑ لائیں

    اخیر شب سرد راکھ چولھے کی جھاڑ لائیں تمہاری یادوں کے آئنے پھر سے جگمگائیں گلی کے نکڑ پر اب نہیں ہے وہ شور پھیلا بھلائی اس میں ہے ذائقے ہم بھی بھول جائیں رکھے رکھے ہو گئے پرانے تمام رشتے کہاں کسی اجنبی سے رشتہ نیا بنائیں وہ ہنسی آنکھیں جلائے دیتی ہیں جاں ہماری نواح جاں میں ...

    مزید پڑھیے

    سینت کر ایمان کچھ دن اور رکھنا ہے ابھی

    سینت کر ایمان کچھ دن اور رکھنا ہے ابھی آج کل بازار میں مندی ہے سستا ہے ابھی درمیاں جو فاصلہ رکھا ہوا سا ہے ابھی اک یہی اس تک پہنچنے کا وسیلہ ہے ابھی یوں ہی سب مل بیٹھتے ہیں سابقون الاولون دشت میں جاری ہمارا آنا جانا ہے ابھی مسکرانا ایک فن ہے اور میں نومشق ہوں پھر بھی کیا کم ہے ...

    مزید پڑھیے

    وعدہ تھا کب کا بار خدا سوچنے تو دے

    وعدہ تھا کب کا بار خدا سوچنے تو دے معقول کوئی عذر نیا سوچنے تو دے پرچی وہ جس پہ لکھا ہوا ہے پتہ ترا رکھ کر کہاں میں بھول گیا سوچنے تو دے وہ ہجر بھی تو گونگی پہیلی سے کم نہ تھا اب وصل آ پڑا ہے ذرا سوچنے تو دے اے چال باز ایسے نہ اترا کے مسکرا چلنے دے چال مجھ کو ذرا سوچنے تو دے ہوں ...

    مزید پڑھیے

    مختصر ہی سہی میسر ہے

    مختصر ہی سہی میسر ہے جو بھی کچھ ہے نہیں سے بہتر ہے دن دہاڑے گناہ کرتا ہوں معتبر ہو نہ جاؤں یہ ڈر ہے منچ پر کامیاب ہو کہ نہ ہو مجھ کو کردار اپنا ازبر ہے سب کو پتھرا دیا پلک جھپکے ہم نہ کہتے تھے شعبدہ گر ہے عین ممکن ہے وہ پلٹ آئے میرا ایمان معجزوں پر ہے پہلے موسم پہ تبصرہ ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے عالم سے میرا عالم ذرا الگ ہے

    تمہارے عالم سے میرا عالم ذرا الگ ہے ہو تم بھی غمگیں مگر مرا غم ذرا الگ ہے یہاں پہ ہنسنا روا ہے رونا ہے بے حیائی سقوط شہر جنوں کا ماتم ذرا الگ ہے کھلیں گے شاخوں کے راز اہل چمن پر اب کے گرہ گرہ سے الجھتی شبنم ذرا الگ ہے ترے تصور کی دھوپ اوڑھے کھڑا ہوں چھت پر مرے لیے سردیوں کا موسم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2