کھیل رچایا اس نے سارا ورنہ پھر کیوں ہوتا میں
کھیل رچایا اس نے سارا ورنہ پھر کیوں ہوتا میں اس نے ہی یہ بھیڑ لگائی بنا ہوں صرف تماشا میں اس نے اپنے دم کو پھونکا اور مجھے بیدار کیا میں پانی تھا میں ذرہ تھا لمبی نیند سے جاگا میں اس نے پہلے روپ دیا پھر رنگ دیا پھر اذن دیا بحر و بر میں برگ و ثمر میں نئے سفر پر نکلا میں آئینے کی ...