Sabir Shah Sabir

صابر شاہ صابر

صابر شاہ صابر کی غزل

    برا وقت آ کر گزرتا نہیں ہے

    برا وقت آ کر گزرتا نہیں ہے مسرت بھرا پل ٹھہرتا نہیں ہے کرو خود اجالوں کے اسباب پیدا چراغوں میں سورج اترتا نہیں ہے سنبھالیں سبھی مرتبہ اپنا اپنا سمندر ندی میں اترتا نہیں ہے بزرگوں کی عزت ہے جس گھر کا شیوہ یہ سچ ہے کہ وہ گھر بکھرتا نہیں ہے انا پر اگر بات آ جائے صابرؔ ہواؤں سے ...

    مزید پڑھیے

    زمانے نے ارماں نکالے بہت ہیں

    زمانے نے ارماں نکالے بہت ہیں مری سمت پتھر اچھالے بہت ہیں انا کا یہ بیوپار مجھ سے نہ ہوگا مجھے اپنے سوکھے نوالے بہت ہیں ابھی اپنی تقدیر خود لکھ رہا ہوں نہیں غم جو ہاتھوں میں چھالے بہت ہیں شکایت تو غیروں سے کرنا عبث ہے ہمارے ہی ذہنوں میں جالے بہت ہیں دکھاتے ہیں دیکھو مگرمچھ کے ...

    مزید پڑھیے

    اے سخنور طرح گماں ہوں میں

    اے سخنور طرح گماں ہوں میں یا فقط حرف رایگاں ہوں میں عکس جل بجھ گئے بجھا چہرہ آئنے سے اٹھا دھواں ہوں میں ہے میسر متاع تشنہ لبی خشک دریا کا پاسباں ہوں میں آگ سے بیر دھوپ بھی ہے عدو اور اک موم کا مکاں ہوں میں مشترک ہم میں ہجرتوں کی تھکن تتلیوں کا مزاج داں ہوں میں تجربے کی گھنیری ...

    مزید پڑھیے

    سیاست جب ضرورت ہو نیا رشتہ بناتی ہے

    سیاست جب ضرورت ہو نیا رشتہ بناتی ہے کوئی کتنا مخالف ہو اسے اپنا بناتی ہے شناسا خوف کی تصویر ہے اس کی بیاضوں میں مری بیٹی حسیں پنجرے میں اک چڑیا بناتی ہے تخیل حرف میں ڈھل کر ابھر آتا ہے کاغذ پر سراپا سوچتا ہوں میں غزل چہرہ بناتی ہے کسی پر مہرباں ہوتی ہے جب بھی دولت دنیا اسے صاحب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2