زمانے نے ارماں نکالے بہت ہیں

زمانے نے ارماں نکالے بہت ہیں
مری سمت پتھر اچھالے بہت ہیں


انا کا یہ بیوپار مجھ سے نہ ہوگا
مجھے اپنے سوکھے نوالے بہت ہیں


ابھی اپنی تقدیر خود لکھ رہا ہوں
نہیں غم جو ہاتھوں میں چھالے بہت ہیں


شکایت تو غیروں سے کرنا عبث ہے
ہمارے ہی ذہنوں میں جالے بہت ہیں


دکھاتے ہیں دیکھو مگرمچھ کے آنسو
دلوں کے مگر لوگ کالے بہت ہیں


مجھے ہجر کے ان اندھیروں کا غم کیا
تری یاد کے یہ اجالے بہت ہیں


سنبھل کر ہی رہئے ذرا ان سے صابرؔ
جہاں میں الٹ پھیر والے بہت ہیں