Sabir Shah Sabir

صابر شاہ صابر

صابر شاہ صابر کی غزل

    ابر کا سر پہ سائباں بھی تو ہو

    ابر کا سر پہ سائباں بھی تو ہو صحبت یاد رفتگاں بھی تو ہو ٹوٹے کیسے یہاں سکوت سخن شہر میں کوئی ہم زباں بھی تو ہو چاند تارے لئے کہاں ٹانکیں اپنے حصے میں آسماں بھی تو ہو میز گلدان تتلیاں کھڑکی ایسے منظر میں ایک مکاں بھی تو ہو عکس چہرے سے چھانٹنا ہے اگر ایک آئینہ درمیاں بھی تو ...

    مزید پڑھیے

    منزل بے نشاں سے کیا حاصل

    منزل بے نشاں سے کیا حاصل گم شدہ کارواں سے کیا حاصل تنگ ہوتی زمیں کا ٹکڑا دے وسعت آسماں سے کیا حاصل کیا کریں جب کہ بجھ گئیں آنکھیں رونق بے کراں سے کیا حاصل داد خواہی کا حق بھی چھین لیا اب کہ دارالاماں سے کیا حاصل لمس رشتوں کا پائیں دیواریں گھر عطا کر مکاں سے کیا حاصل لٹ گئیں ...

    مزید پڑھیے

    ایک مدت سے ادھورا ہے سراپا اپنا

    ایک مدت سے ادھورا ہے سراپا اپنا گم ہوا جانے کہاں بھیڑ میں چہرہ اپنا میری خواہش کے پرندے کو قناعت ہے پسند سوکھی ٹہنی پہ ہی کرتا ہے بسیرا اپنا حرص کاروں کے خزانے کی ہوئی ہے جب سے خیر خیرات سے بھرتا نہیں کاسہ اپنا ہم نے سیکھا ہے گلابوں سے تکلم کا طریق کھردرا ہو نہیں سکتا کبھی ...

    مزید پڑھیے

    سنگ ریزوں کی طرح پیش نظر رہتے ہیں

    سنگ ریزوں کی طرح پیش نظر رہتے ہیں میرے کاسے میں پڑے لعل و گہر رہتے ہیں سائے چنتے ہیں کڑی دھوپ کے صحرا سے ہم پا شکستہ ہیں مگر محو سفر رہتے ہیں کال کوئل کی صدائیں نہ شفق رنگ کہیں شہر میں جانے کہاں شام و سحر رہتے ہیں کھیلتے ہیں مرے آنگن میں وہ خوش خوش باہم رنج خوشیوں سے بہت شیر و ...

    مزید پڑھیے

    ذہن میں کچھ قیاس رہتا ہے

    ذہن میں کچھ قیاس رہتا ہے نصف خالی گلاس رہتا ہے ہر طرف رنگ و نور ہے پھر بھی شہر کیوں کر اداس رہتا ہے مفلسی میں بھی ہاتھ پھیلائیں کچھ تو عزت کا پاس رہتا ہے امن کا قتل ہو گیا جب سے شہر اب بد حواس رہتا ہے تیز رفتار زندگانی میں حادثہ آس پاس رہتا ہے دور پتھر کا پھر سے لوٹ آیا اب جہاں ...

    مزید پڑھیے

    زخم پر پھونک بھی دوا جیسی

    زخم پر پھونک بھی دوا جیسی ماں کی ہر بات ہے دعا جیسی مدتوں سے سفر میں ہوں پھر بھی انتہا کیوں ہے ابتدا جیسی چھوٹی دنیا کی یہ بڑی خبریں تیز رفتار ہیں ہوا جیسی میری ہم راہ بن کے چلتی ہیں مشکلیں تو ہیں دل ربا جیسی جب بھی بھٹکا ترا خیال آیا تیری یادیں ہیں نقش پا جیسی ان کی یہ ...

    مزید پڑھیے

    ایک چہرے پہ ہیں کئی چہرے

    ایک چہرے پہ ہیں کئی چہرے پڑھ نہیں پاؤ گے سبھی چہرے خود کی پہچان ہو گئی مشکل یوں بدلتی ہے زندگی چہرے تیز تھی غم کی دھوپ ہم پر یوں کھو چکے کب سے تازگی چہرے زہر غم پی کے مسکراتے ہیں ان کے دیکھے بھی ہیں کبھی چہرے ہر گھڑی کیوں سپاٹ لگتے ہیں تن پہ ہوں جیسے کاغذی چہرے اب کہاں تاب ...

    مزید پڑھیے

    اپنے سائے کو بھی اسیر بنا

    اپنے سائے کو بھی اسیر بنا بہتے پانی پہ اک لکیر بنا صرف خیرات حرف و صوت کی دے شہر فن کا مجھے امیر بنا شوخ تتلی ہے گر ہدف پہ ترے گل کے ریشوں سے ایک تیر بنا مجھ کو کشکول کے بغیر ہی دے اک گداگر نہیں فقیر بنا ریت پر راہ ڈھونڈ مت صابرؔ آ فلک پر نئی لکیر بنا

    مزید پڑھیے

    سنور جائے بھی تو منہ دیکھنے درپن نہیں ملتا

    سنور جائے بھی تو منہ دیکھنے درپن نہیں ملتا غریبی کی کلائی میں کوئی کنگن نہیں ملتا بڑوں کی خواہشوں کا بوجھ ہے ننھے سے کندھوں پر ہمارے دور میں بچوں کو اب بچپن نہیں ملتا میں ضد کر کے کبھی روتا تو آنسو پونچھ لیتی تھی ابھی روتا ہوں تو شفقت بھرا دامن نہیں ملتا کہیں جھولے نہیں پڑتے ...

    مزید پڑھیے

    ہر اک ٹہنی پہ گل مرجھا ہوا ہے

    ہر اک ٹہنی پہ گل مرجھا ہوا ہے بھرے گھر میں کوئی تنہا ہوا ہے وجود اس کا زمانہ مانتا ہے کہ دریا جب تلک بہتا ہوا ہے مجھے خیرات میں لوٹا رہے ہو مرے پرکھوں سے جو چھینا ہوا ہے ہمیں میلوں لیے چلتا ہے تاہم بظاہر راستہ ٹھہرا ہوا ہے مرے مولیٰ سمیٹے کون کس کو یہاں ہر آدمی بکھرا ہوا ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2