ایک چہرے پہ ہیں کئی چہرے

ایک چہرے پہ ہیں کئی چہرے
پڑھ نہیں پاؤ گے سبھی چہرے


خود کی پہچان ہو گئی مشکل
یوں بدلتی ہے زندگی چہرے


تیز تھی غم کی دھوپ ہم پر یوں
کھو چکے کب سے تازگی چہرے


زہر غم پی کے مسکراتے ہیں
ان کے دیکھے بھی ہیں کبھی چہرے


ہر گھڑی کیوں سپاٹ لگتے ہیں
تن پہ ہوں جیسے کاغذی چہرے


اب کہاں تاب مسکرانے کی
خوف سے زرد ہیں ابھی چہرے


ہم نے دیکھا ہے بارہا صابرؔ
اپنے لگتے ہیں اجنبی چہرے