Sabir Afaqi

صابر آفاقی

  • 1933

صابر آفاقی کی غزل

    کسی ظالم کی جیتے جی ثنا خوانی نہیں ہوگی

    کسی ظالم کی جیتے جی ثنا خوانی نہیں ہوگی کہ دانا ہو کے مجھ سے ایسی نادانی نہیں ہوگی دل آباد کا سا کوئی شہر آباد کیا ہوگا دل ویران کی سی کوئی ویرانی کہاں ہوگی عدو سے کیا گلہ کرنا کہ وہ معذور لگتا ہے ہماری قدر و قیمت اس نے پہچانی نہیں ہوگی نجومی میں نہیں لیکن یہ اندازے سے کہتا ...

    مزید پڑھیے

    نہ کسی میں نظر آئی یہ کرامت مجھ کو

    نہ کسی میں نظر آئی یہ کرامت مجھ کو ورنہ کیوں سونپتے دنیا کی امامت مجھ کو ایک مدت سے مجھے ڈھونڈ رہے تھے احباب اب ملا ہوں تو نہ چھوڑیں گے سلامت مجھ کو تو اگر میرا خدا ہے تو مرے پاس بھی آ دور افلاک سے دے اور صدا مت مجھ کو ان عذابوں سے بڑا اور کہاں کوئی عذاب سہل لگتا ہے بہت خوف قیامت ...

    مزید پڑھیے

    جو بوئے زندگی مجھے کرن کرن سے آئی ہے

    جو بوئے زندگی مجھے کرن کرن سے آئی ہے حقیقتاً وہ آپ ہی کے پیرہن سے آئی ہے ہمارے جسم و روح کو سرور دے گئی وہی نسیم خوش گوار جو ترے بدن سے آئی ہے یہ کون شخص مر گیا یہ کس کا ہے کفن کہو؟ کہ زندگی کی بو مجھے اسی کفن سے آئی ہے طریقت نبرد میں ہمارا سلسلہ ہے اور! یہ خود کشی کی رسم بد تو کوہ ...

    مزید پڑھیے

    تخلیق کا انداز نکال اور طرح کا

    تخلیق کا انداز نکال اور طرح کا پیڑا کوئی اب چاک پہ ڈال اور طرح کا دل ہوں گے دلوں میں کوئی دھڑکن نہیں ہوگی انسان پہ آنا ہے زوال اور طرح کا افلاک کی مشعل سے اندھیرے نہ مٹیں گے سورج کوئی دھرتی سے اچھال اور طرح کا مدت سے مرے نطق و تخیل میں ٹھنی ہے لفظ اور طرح کے ہیں خیال اور طرح ...

    مزید پڑھیے