تخلیق کا انداز نکال اور طرح کا
تخلیق کا انداز نکال اور طرح کا
پیڑا کوئی اب چاک پہ ڈال اور طرح کا
دل ہوں گے دلوں میں کوئی دھڑکن نہیں ہوگی
انسان پہ آنا ہے زوال اور طرح کا
افلاک کی مشعل سے اندھیرے نہ مٹیں گے
سورج کوئی دھرتی سے اچھال اور طرح کا
مدت سے مرے نطق و تخیل میں ٹھنی ہے
لفظ اور طرح کے ہیں خیال اور طرح کا
وہ دور سے ای میل پہ کر لیتے ہیں باتیں
ہجر اور طرح کا ہے وصال اور طرح کا
دنیا کی سبھی آنکھیں ہیں اس آنکھ پہ حیراں
اب دشت میں آیا ہے غزال اور طرح کا
قیمت بھی کوئی پوچھنے آتا نہیں صابرؔ
دوکان میں ڈالا ہے جو مال اور طرح کا