Saba Alam Shah

صبا عالم شاہ

صبا عالم شاہ کی غزل

    یہ دل فریب تمنا میں بے قرار کیا

    یہ دل فریب تمنا میں بے قرار کیا یہی ہے جرم جسے ہم نے بار بار کیا نہ ہم نے سود و زیاں دیکھ کر محبت کی نہ نفرتوں کا کبھی ہم نے کاروبار کیا شکستہ روح سلگتی نگہ دل مہجور نہ پوچھ کیسے ہر اک زخم کا شمار کیا ترے جمال نظر نے دیا فریب ہمیں اسی فریب نظر نے ہے اشک بار کیا نوائے صبح ازل تیری ...

    مزید پڑھیے

    جب سے جانا ہے کہ دنیا میں وفا کوئی نہیں

    جب سے جانا ہے کہ دنیا میں وفا کوئی نہیں پھر کسی سے بھی رہا ہم کو گلہ کوئی نہیں ہر طرف جھوٹ ہے دھوکا ہے بے ایمانی ہے اور اخلاص و محبت کا صلہ کوئی نہیں ہر زباں پر گلے شکوے تو بہت ہیں لیکن حرف تحسین نہیں لفظ دعا کوئی نہیں اجنبی ہو گئے وہ لوگ جو اپنے تھے کبھی ہم سے از راہ مروت بھی ملا ...

    مزید پڑھیے

    کبھی سحر سے کبھی تیرگی سے شکوہ ہے

    کبھی سحر سے کبھی تیرگی سے شکوہ ہے کبھی خدا سے کبھی آدمی سے شکوہ ہے خود اپنی ذات سے جو آشنا نہیں اس کو بس ایک اپنے سوا ہر کسی سے شکوہ ہے مجازی عشق کسی کو سکوں نہیں دیتا جسے بھی دیکھو اسے دل لگی سے شکوہ ہے وفا اس عہد جفا میں ہے اک فریب نظر بساط وقت کی جادوگری سے شکوہ ہے کرے جو کھل ...

    مزید پڑھیے