یہ دل فریب تمنا میں بے قرار کیا
یہ دل فریب تمنا میں بے قرار کیا
یہی ہے جرم جسے ہم نے بار بار کیا
نہ ہم نے سود و زیاں دیکھ کر محبت کی
نہ نفرتوں کا کبھی ہم نے کاروبار کیا
شکستہ روح سلگتی نگہ دل مہجور
نہ پوچھ کیسے ہر اک زخم کا شمار کیا
ترے جمال نظر نے دیا فریب ہمیں
اسی فریب نظر نے ہے اشک بار کیا
نوائے صبح ازل تیری چاہ میں ہم نے
نہ پوچھ دشت خموشاں کو کیسے پار کیا
نظر نہ آئی حقیقت مجاز کی صورت
نگاہ شوق نے پیہم یہ انتظار کیا
گری تھی برق تجلی جو قلب پر میرے
اسی نے راز حقیقت کو آشکار کیا
سحر کی آس میں گزری صباؔ یہ عمر تمام
حریم زیست کا ظلمت نے یوں حصار کیا