کبھی سحر سے کبھی تیرگی سے شکوہ ہے
کبھی سحر سے کبھی تیرگی سے شکوہ ہے
کبھی خدا سے کبھی آدمی سے شکوہ ہے
خود اپنی ذات سے جو آشنا نہیں اس کو
بس ایک اپنے سوا ہر کسی سے شکوہ ہے
مجازی عشق کسی کو سکوں نہیں دیتا
جسے بھی دیکھو اسے دل لگی سے شکوہ ہے
وفا اس عہد جفا میں ہے اک فریب نظر
بساط وقت کی جادوگری سے شکوہ ہے
کرے جو کھل کے عداوت نہیں ہے اس سے گلہ
منافقت سے بھری دوستی سے شکوہ ہے
سکون دل تو ملا ہے نشاط زیست نہیں
قلندروں کا یہی آگہی سے شکوہ ہے
کوئی عمل نہیں ایسا خدا کو پیش کروں
صباؔ مجھے مری اس بندگی سے شکوہ ہے