Saail Dehlvi

سائل دہلوی

سائل دہلوی کی غزل

    سنا بھی کبھی ماجرا درد و غم کا کسی دل جلے کی زبانی کہو تو

    سنا بھی کبھی ماجرا درد و غم کا کسی دل جلے کی زبانی کہو تو نکل آئیں آنسو کلیجہ پکڑ لو کروں عرض اپنی کہانی کہو تو تمہیں رنگ مے شیخ مرغوب کیا ہے گلابی ہو یا زعفرانی کہو تو پلائے کوئی ساقئ حور پیکر مصفا کشیدہ پرانی کہو تو تمنائے دیدار ہے حسرت دل کہ تم جلوہ فرما ہو میں آنکھیں ...

    مزید پڑھیے

    ملے غیروں سے مجھ کو رنج و غم یوں بھی ہے اور یوں بھی

    ملے غیروں سے مجھ کو رنج و غم یوں بھی ہے اور یوں بھی وفا دشمن جفا جو کا ستم یوں بھی ہے اور یوں بھی کہیں وامق کہیں مجنوں رقم یوں بھی ہے اور یوں بھی ہمارے نام پر چلتا قلم یوں بھی ہے اور یوں بھی شب وعدہ وہ آ جائیں نہ آئیں مجھ کو بلوا لیں عنایت یوں بھی ہے اور یوں بھی کرم یوں بھی ہے اور ...

    مزید پڑھیے

    ہوتے ہی جواں ہو گئے پابند حجاب اور

    ہوتے ہی جواں ہو گئے پابند حجاب اور گھونگھٹ کا اضافہ ہوا بالائے نقاب اور جب میں نے کہا کم کرو آئین حجاب اور فرمایا بڑھا دوں گا ابھی ایک نقاب اور پینے کی شراب اور جوانی کی شراب اور ہشیار کے خواب اور ہیں مدہوش کے خواب اور گردن بھی جھکی رہتی ہے کرتے بھی نہیں بات دستور حجاب اور ہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2