Saadullah Shah

سعد اللہ شاہ

سعد اللہ شاہ کی غزل

    کسی بھی وہم کو خود پر سوار مت کرنا

    کسی بھی وہم کو خود پر سوار مت کرنا خیال یار کو گرد و غبار مت کرنا خلاف واقعہ کچھ بھی ہو سن سنا لینا یہی طریقہ مگر اختیار مت کرنا تمہاری آنکھ میں نفرت ہو دوسروں کے لئے تم اپنی ذات سے اتنا بھی پیار مت کرنا نشہ چڑھا ہے تو پھر یہ اتر بھی جائے گا جو ہے سرور تو اس کو خمار مت کرنا کوئی ...

    مزید پڑھیے

    تم نے کیسا یہ رابطہ رکھا

    تم نے کیسا یہ رابطہ رکھا نہ ملے ہو نہ فاصلہ رکھا نہیں چاہا کسی کو تیرے سوا تو نے ہم کو بھی پارسا رکھا پھول کھلتے ہی کھل گئیں آنکھیں کس نے خوشبو میں سانحہ رکھا تو نہ رسوا ہو اس لیے ہم نے اپنی چاہت پہ دائرہ رکھا جھوٹ بولا تو عمر بھر بولا تم نے اس میں بھی ضابطہ رکھا کوئی دیکھے یہ ...

    مزید پڑھیے

    ہنسی کی بات کہ اس نے وہاں بلا کے مجھے

    ہنسی کی بات کہ اس نے وہاں بلا کے مجھے بہت رلایا کہانی مری سنا کے مجھے ہر ایک لمحہ مرا خوف کی گرفت میں ہے محافظوں سے بچائے گا کون آ کے مجھے کمال فن سے لیا کام اس نے مجھ سے بھی تباہ اپنے عدو کو کیا بچا کے مجھے وہ باغ باغ ہوا ہے تو بے سبب بھی نہیں ملا ہے کچھ تو اسے خاک میں ملا کے ...

    مزید پڑھیے

    یہ جمال کیا یہ جلال کیا یہ عروج کیا یہ زوال کیا

    یہ جمال کیا یہ جلال کیا یہ عروج کیا یہ زوال کیا وہ جو پیڑ جڑ سے اکھڑ گیا اسے موسموں کا ملال کیا وہ جو لمحہ لمحہ بکھر گیا وہ جو اپنی حد سے گزر گیا اسے فکر شام و سحر ہو کیا اسے رنجش مہ و سال کیا وہ جو بے نیاز سا ہو گیا وہ جو ایک راز سا ہو گیا جسے کچھ غرض ہی نہیں رہی اسے دست حرف سوال ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2