Saadullah Shah

سعد اللہ شاہ

سعد اللہ شاہ کی غزل

    دشت کی پیاس بڑھانے کے لیے آئے تھے

    دشت کی پیاس بڑھانے کے لیے آئے تھے ابر بھی آگ لگانے کے لیے آئے تھے ایسے لگتا ہے کہ ہم ہی سے کوئی بھول ہوئی تم کسی اور زمانے کے لیے آئے تھے اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں کو جھپکیں کیسے جو ترا عکس چرانے کے لیے آئے تھے موج در موج ہوا آب رواں قوس قزح تارے آنکھوں میں نہانے کے لیے آئے ...

    مزید پڑھیے

    کیوں نہ ہم سوچ کے سانچے میں ہی ڈھل کر دیکھیں

    کیوں نہ ہم سوچ کے سانچے میں ہی ڈھل کر دیکھیں وہ جو قائم ہے تو پھر خود کو بدل کر دیکھیں گو مسافت ہے کٹھن اور نہ رستہ کوئی لیکن اس حال میں اچھا ہے کہ چل کر دیکھیں ہم محبت کو مکمل نہیں ظاہر کرتے وہ حنا برگ کو چٹکی میں مسل کر دیکھیں زندگی موت میں مخفی ہے یقیناً اپنی مثل پروانہ چلو ہم ...

    مزید پڑھیے

    موت اک درندہ ہے زندگی بلا سی ہے

    موت اک درندہ ہے زندگی بلا سی ہے صبح بھی اداسی ہے شام بھی اداسی ہے اپنی انتہا پر ہم شاید ابتدا میں ہیں تب بھی بے بسی تھی اب بھی بے لباسی ہے بادلوں کو آنا ہے لوٹ کر اسی جانب یہ زمیں ہی پیاسی تھی یہ زمیں ہی پیاسی ہے یہ بھی ایک نعمت ہے کاش تم سمجھ پاؤ زندگی کے اندر جو اپنے اک خلا سی ...

    مزید پڑھیے

    ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو

    ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو کیا یہ کافی نہیں ظالم تری حیرانی کو کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو شیشۂ شوق پہ تو سنگ ملامت نہ گرا عکس گل رنگ ہی کافی ہے گراں بانی کو دامن چشم میں تارا ہے نہ جگنو کوئی دیکھ اے دوست مری بے سر و سامانی ...

    مزید پڑھیے

    ہم کو خوش آیا ترا ہم سے خفا ہو جانا

    ہم کو خوش آیا ترا ہم سے خفا ہو جانا سر بسر خواب کا تعبیر نما ہو جانا چند اشکوں نے چھپایا ہے مکمل منظر ہم پہ کھلتا ہی گیا تیرا جدا ہونا اپنی خواہش تری یادوں میں بھٹکتی ہے کہیں جیسے گلگشت میں تتلی کا فنا ہو جانا شاخ در شاخ سبک سار ہواؤں کا گزر اک قفس سے کسی پنچھی کا رہا ہو ...

    مزید پڑھیے

    یہ رات دن کا بدلنا نظر میں رہتا ہے

    یہ رات دن کا بدلنا نظر میں رہتا ہے ہمارا ذہن مسلسل سفر میں رہتا ہے نظر میں اس کی تو وسعت ہے آسمانوں کی گو دیکھنے کو پرندہ شجر میں رہتا ہے ہمارا نام وہ لے لے تو لوگ چونک اٹھیں کہ فرد فرد ہمارے اثر میں رہتا ہے شجر شجر جو ثمر ہے تو دیکھ خود کو بھی جہان نو کا تصور ثمر میں رہتا ہے ہر ...

    مزید پڑھیے

    وہ بھی بگڑا، ہوئی رسوائی بھی

    وہ بھی بگڑا، ہوئی رسوائی بھی جان لیوا ہے شناسائی بھی دل کی جانب جو چلی غم کی ہوا لڑکھڑانے لگی تنہائی بھی تھا مقابل جو مرے دوست مرا مجھ کو اچھی لگی پسپائی بھی کیوں اٹھاتے ہو ہمیں ہوتے ہیں ہر تماشے میں تماشائی بھی چاندنی ہاتھ پہ رکھ کر شب نے ایک صورت مجھے دکھلائی بھی سعدؔ کچھ ...

    مزید پڑھیے

    درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی

    درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی تھا جو اس دل میں دکھانے کی ضرورت کیا تھی ہم نے جو کچھ بھی کیا اپنی محبت میں کیا گو سمجھتے ہیں زمانے کی ضرورت کیا تھی ہو جو چاہت تو ٹپک پڑتی ہے خود آنکھوں سے اے مرے دوست بتانے کی ضرورت کیا تھی اتنے حساس ہیں سانسوں سے پگھل جاتے ہیں بجلیاں ہم پہ ...

    مزید پڑھیے

    وقت تو وقت ہے رکتا نہیں اک پل کے لئے

    وقت تو وقت ہے رکتا نہیں اک پل کے لئے ہو وہی بات جو قائم بھی رہے کل کے لئے منصف وقت حقیقت ہے حقیقت ہے خدا خوف لازم ہے بہر طور ہر اک حل کے لئے اے مری خواہش تحصیل سجھا دے مجھ کو کوئی رستہ در امکان مقفل کے لئے میں سمندر ہوں خموشی پہ نہ جانا میری مجتمع کرتا ہوں طاقت کو بڑی چھل کے ...

    مزید پڑھیے

    ابر اترا ہے چار سو دیکھو

    ابر اترا ہے چار سو دیکھو اب وہ نکھرے گا خوب رو دیکھو سرخ اینٹوں پہ ناچتی بارش اور یادیں ہیں رو بہ رو دیکھو ایسے موسم میں بھیگتے رہنا ایک شاعر کی آرزو دیکھو وہ جو زینہ بہ زینہ اترا ہے عکس میرا ہے ہو بہو دیکھو اپنی سوچیں سفر میں رہتی ہیں اس کو پانے کی جستجو دیکھو دل کی دنیا ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2