Saadat Saeed

سعادت سعید

سعادت سعید کی نظم

    مد و جزر

    شام ہنگام تو ہم ہے تصور کے کھٹولوں پہ سجی اپنے اجداد کے ایام کی تصویریں دمک اٹھی ہیں ایسے لگتا ہے کہ ذروں سے نکلتے تھے قمر زندگی رقص کناں نازاں و شاداب ہوا کرتی تھی ندیاں دودھ کی بہتی تھیں معطر تھی ہوا محفل ہست میں ہر سو تھے رسیلے پنگھٹ سبز پیڑوں پہ کھلا کرتے تھے نغموں کے ...

    مزید پڑھیے

    اپنی محرومی کا دکھ

    میں نوحہ لکھتا ہوں اپنے خلیوں کے چھلنی خوابوں اے سر زمین ہوس میں پھیلے سراب آسا کھلے گلابوں کا منظروں کے لہو میں گھلتی غلیظ مٹی کی باتوں کا مرے وجود سیہ بختی میں اجڑے اشکوں کے گرد سائے قفس بنے میں میں دائروں کے مہین تاروں کی ناتمامی میں ریشہ ریشہ سمٹ گیا ہوں کہانیوں کے دبیز ...

    مزید پڑھیے

    مرنے کا خوف

    سر زمین تمنا کی مٹی سلاخیں اگانے لگی ہے گرفتار ہونے کا موسم سر قریۂ آبرو آفتاب ہلاکت کی صورت چمکنے لگا ہے شعاعوں کے نوکیلے پنجوں نے جسموں کو زخمی کیا ہے بھنور در بھنور روشنی کے سمندر طوفان قیدی ہوئے یہ بستی گناہوں سے معمور آفت رسیدوں کی بستی ہے نوزائدہ آرزو انتہاؤں کے امکاں ...

    مزید پڑھیے