مد و جزر
شام ہنگام تو ہم ہے تصور کے کھٹولوں پہ سجی اپنے اجداد کے ایام کی تصویریں دمک اٹھی ہیں ایسے لگتا ہے کہ ذروں سے نکلتے تھے قمر زندگی رقص کناں نازاں و شاداب ہوا کرتی تھی ندیاں دودھ کی بہتی تھیں معطر تھی ہوا محفل ہست میں ہر سو تھے رسیلے پنگھٹ سبز پیڑوں پہ کھلا کرتے تھے نغموں کے ...