اپنی محرومی کا دکھ
میں نوحہ لکھتا ہوں اپنے خلیوں کے چھلنی خوابوں اے
سر زمین ہوس میں پھیلے سراب آسا کھلے گلابوں کا
منظروں کے لہو میں گھلتی غلیظ مٹی کی باتوں کا
مرے وجود سیہ بختی میں اجڑے اشکوں کے گرد سائے قفس بنے میں
میں دائروں کے مہین تاروں کی
ناتمامی میں
ریشہ ریشہ سمٹ گیا ہوں
کہانیوں کے دبیز پردوں کی تہ میں عریاں
تمہاری آنکھوں کی مسکراہٹ عذاب بن کر
مرے سفر کی ہر ایک منزل میں آ چھپی ہے
میں نوحہ لکھتا ہوں
زرد سوچوں کا
کالی سانسوں کا
اپنے ہونٹوں کے شمسی لفظوں کا ذائقوں کا
تمہارے سینے پہ کنڈلی مارے جو سانپ بیٹھا ہے
اس کی خونی زباں کا نوحہ
خود اپنے باطن کے خشک صحرا میں
اجلے تاروں کی تابناکی کا
خواہشوں سے بھری ہواؤں کی کائناتوں کا نوحہ لکھتا ہوں نوحہ خواں ہوں