آنکھوں سے وہ کبھی مری اوجھل نہیں رہا
آنکھوں سے وہ کبھی مری اوجھل نہیں رہا غافل میں اس کی یاد سے اک پل نہیں رہا کیا ہے جو اس نے دور بسا لی ہیں بستیاں آخر مرا دماغ بھی اول نہیں رہا لاؤ تو سرّ دہر کے مفہوم کی خبر عقدہ اگرچہ کوئی بھی مہمل نہیں رہا شاید نہ پا سکوں میں سراغ دیار شوق قبلہ درست کرنے کا کس بل نہیں رہا دشت ...