ریاست علی تاج کی غزل

    نظر ملاتے نہیں مسکرائے جاتے ہیں

    نظر ملاتے نہیں مسکرائے جاتے ہیں بتاؤ یوں بھی کہیں دل ملائے جاتے ہیں ہجوم جلوۂ رنگیں کا مدعا معلوم ہماری تاب نظر آزمائے جاتے ہیں حجاب ہو مگر ایسا بھی کیا حجاب آخر جھلک دکھاتے نہیں منہ چھپائے جاتے ہیں حدود کوچۂ جاناں میں آ گئے شاید قدم قدم پہ قدم ڈگمگائے جاتے ہیں یہ کس کا ذکر ...

    مزید پڑھیے

    چاندنی چھٹکی ہوئی ہو تو غزل ہوتی ہے

    چاندنی چھٹکی ہوئی ہو تو غزل ہوتی ہے جل پری پاس کھڑی ہو تو غزل ہوتی ہے دل نشیں کوئی نظارہ کوئی دل کش منظر بات دلچسپ کوئی ہو تو غزل ہوتی ہے یا کسی درد میں ڈوبی ہوئی آواز نحیف یا کوئی چیخ سنی ہو تو غزل ہوتی ہے شاعری نام ہے احساس کے لو پانے کا آگ سی دل میں دبی ہو تو غزل ہوتی ہے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    زاد رہ بھی نہیں بے رخت سفر جاتے ہیں

    زاد رہ بھی نہیں بے رخت سفر جاتے ہیں سخت حیرت ہے کہ یہ لوگ کدھر جاتے ہیں بے خودی میں ترے دیوانہ جدھر جاتے ہیں منزلیں پوچھتی پھرتی ہیں کدھر جاتے ہیں وقت پڑ جائے تو ہم سینہ سپر جاتے ہیں نام ہی نام نہیں کام بھی کر جاتے ہیں ہائے کس موڑ پہ حالات نے پہنچایا ہے آپ ہم سایے سے ہم سائے سے ...

    مزید پڑھیے

    یہ سرمئی آفاق یہ شمعوں کے دھندلکے

    یہ سرمئی آفاق یہ شمعوں کے دھندلکے آ جاؤ بھی یادوں کے جھروکوں سے نکل کے دیوانے چلے آتے ہیں صحرا سے نکل کے رکھ دیں نہ کہیں نظم گلستاں ہی بدل کے پھولوں کی طرح ان کی حفاظت ہے ضروری یہ آج کے بچے ہی بڑے ہوتے ہیں کل کے ہے جب تو تحمل کہ کوئی آہ نہ نکلے اک اشک کا قطرہ مری پلکوں سے نہ ...

    مزید پڑھیے

    اک برق تپاں کوندے بجلی سی چمکے جائے

    اک برق تپاں کوندے بجلی سی چمکے جائے اس عارض رنگیں سے پردہ جو سرک جائے زاہد ہو تو چھک جائے ناصح ہو تو تھک جائے کم ظرف ہے وہ مے کش جو پی کے بہک جائے ساون کی گھٹا اٹھے بھادوں کا سماں باندھے وہ زلف جو بکھرا دے ماحول مہک جائے کلیوں کے تبسم پر تم بھی نہ کہیں ہنس دو ڈر ہے کہ رگ گل میں ...

    مزید پڑھیے

    میرے افکار نے جس شے سے جلا پائی ہے

    میرے افکار نے جس شے سے جلا پائی ہے عشق کی زندہ دلی حسن کی رعنائی ہے شاخ گل میں جو نزاکت جو لہک آئی ہے تیری باہوں کی لچک ہے تیری انگڑائی ہے پھر ابھرنے لگے نہ خستہ ماضی کے نقوش لوح دل پر کوئی تصویر ابھر آئی ہے غم و اندوہ کے اس دور میں کیا عیش و نشاط شادیانے ہیں خوشی کے نہ وہ شہنائی ...

    مزید پڑھیے

    یہ عالم وحشت ہے کہ دہشت کا اثر ہے

    یہ عالم وحشت ہے کہ دہشت کا اثر ہے دامن کی خبر ہے نہ گریباں کی خبر ہے دل توڑنے والے یہ تجھے کچھ بھی خبر ہے اللہ کا گھر ہے ارے اللہ کا گھر ہے دیکھو گے جو حالات پہ تھوڑی سی نظر ہے ہر شخص غلام اثر و بندۂ زر ہے دو چار قدم چل کے ٹھہرتے نہیں رہرو تضحیک منازل ہے یہ توہین سفر ہے کتنے ہی ...

    مزید پڑھیے

    مرحلے ایسے بھی اکثر آئے

    مرحلے ایسے بھی اکثر آئے پھول برسائے تو پتھر آئے اک فقط آپ کے ہو جانے سے کتنے الزام میرے سر آئے جام ٹھکرا دیے جب بھی میں نے سامنے میرے سمندر آئے ایک چہرے پہ بشارت نہ ملی ان گنت چہروں کو پڑھ کر آئے بھول جاتے ہیں پرندے ماں کو جب بھی اڑنے کو ذرا پر آئے آپ کا شہر کہ تھا شہر ادب بے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2