Rifat Naheed

رفعت ناہید

رفعت ناہید کی نظم

    تھکن کی ایک شام

    کام کتنے ادھورے پڑے تھے اور روشنی کم سے کم ہو رہی تھی مجھے یوں لگا میری پیشانی ہلکے پسینے سے نم ہو رہی تھی ایسے میں تم نے مری مانگ کو چوم کر مجھ سے سرگوشیوں میں کہا جان افشاں جبیں پر اتر آئی ہے یا ستاروں نے بوسہ دیا ہے بتاؤ بھلا اب کہاں کی تھکن

    مزید پڑھیے

    رقص

    مرے ہم رقص میں جب ایڑیاں اپنی اٹھا کر تمہارے مضبوط کندھوں سے پرے پس منظر میں رقصاں زیست کو وفا کا گیت گاتے دیکھتی ہوں تو مری مسرور آنکھیں وفور عشق سے بے تاب ہو کر کانپتی ہیں مرے چہرے کو پلکوں کا نغمہ سرخ کرتا ہے بدن کا خون رخساروں پہ شعلے پھینکتا ہے محبت مانگ میں میری روپہلی اور ...

    مزید پڑھیے