تھکن کی ایک شام
کام کتنے ادھورے پڑے تھے اور روشنی کم سے کم ہو رہی تھی مجھے یوں لگا میری پیشانی ہلکے پسینے سے نم ہو رہی تھی ایسے میں تم نے مری مانگ کو چوم کر مجھ سے سرگوشیوں میں کہا جان افشاں جبیں پر اتر آئی ہے یا ستاروں نے بوسہ دیا ہے بتاؤ بھلا اب کہاں کی تھکن