ریحانہ روحی کی غزل

    نظارۂ جمال نے سونے نہیں دیا

    نظارۂ جمال نے سونے نہیں دیا شب بھر ترے خیال نے سونے نہیں دیا پہلے نوید وصل مری نیند لے اڑی پھر نشۂ وصال نے سونے نہیں دیا جس روز اس کے جھوٹ کی سچائیاں کھلیں سقراط کی مثال نے سونے نہیں دیا کس خوبصورتی سے جدا کر دیا ہمیں دشمن کے اس کمال نے سونے نہیں دیا جو بھیک مانگتے ہوئے بچے کے ...

    مزید پڑھیے

    شب و روز رقص وصال تھا سو نہیں رہا

    شب و روز رقص وصال تھا سو نہیں رہا کبھی تجھ کو میرا خیال تھا سو نہیں رہا وہ جو بیقرارئ جان و دل تھی نہیں رہی وہ جو ہجر تیرا محال تھا سو نہیں رہا کبھی آنکھ میں جو مروتیں تھیں فنا ہوئیں پس چشم اشک ملال تھا سو نہیں رہا یہ تو اعتراف شکست ہے کہ مزید اب کوئی محرم مہ و سال تھا سو نہیں ...

    مزید پڑھیے

    نیند آنکھوں میں مسلسل نہیں ہونے دیتا

    نیند آنکھوں میں مسلسل نہیں ہونے دیتا وہ مرا خواب مکمل نہیں ہونے دیتا آنکھ کے شیش محل سے وہ کسی بھی لمحے اپنی تصویر کو اوجھل نہیں ہونے دیتا رابطہ بھی نہیں رکھتا ہے سر وصل کوئی اور تعلق بھی معطل نہیں ہونے دیتا وہ جو اک شہر ہے پانی کے کنارے آباد اپنے اطراف میں دلدل نہیں ہونے ...

    مزید پڑھیے

    کون کہاں تک جا سکتا ہے

    کون کہاں تک جا سکتا ہے یہ تو وقت بتا سکتا ہے عشق میں وحشت کا اک شعلہ گھر کو آگ لگا سکتا ہے جذبوں کی شدت کا سورج زنجیریں پگھلا سکتا ہے تیری آمد کا اک جھونکا اجڑا شہر بسا سکتا ہے آئینے میں جرأت ہو تو عکس بھی صورت پا سکتا ہے آنکھوں میں ٹھہرا اک منظر راہ میں گرد اڑا سکتا ہے تجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    جنون عشق میں صدچاک ہونا پڑتا ہے

    جنون عشق میں صدچاک ہونا پڑتا ہے اس انتہا کے لیے خاک ہونا پڑتا ہے کسی سے جب کبھی ہم زندگی بدلتے ہیں تو پھر بدن کی بھی پوشاک ہونا پڑتا ہے زمیں پہ خاک نشینی کا وصف رکھتے ہوئے کبھی کبھی ہمیں افلاک ہونا پڑتا ہے اگر میں ڈوبی اسے ساتھ لے کے ڈوبوں گی محبتوں میں بھی سفاک ہونا پڑتا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی جادو نہ فسانہ نہ فسوں ہے یوں ہے

    کوئی جادو نہ فسانہ نہ فسوں ہے یوں ہے عاشقی سلسلۂ کار جنوں ہے یوں ہے تو نہیں ہے تو ترے ہجر کی وحشت ہی سہی کہ یہ وحشت ہی مرے دل کا سکوں ہے یوں ہے کچھ نہیں کہنا بھی کہہ دیتا ہے سارا احوال خامشی آئینۂ حال دروں ہے یوں ہے جب سے دیکھا ہے محبت کو عداوت کرتے تب سے ہونٹوں پہ مرے ہاں ہے نہ ...

    مزید پڑھیے

    کی شکایت نہ کوئی شکوۂ بیداد کیا

    کی شکایت نہ کوئی شکوۂ بیداد کیا کیا کہے وہ کہ جسے دوست نے برباد کیا کیا خبر کس کی دعا سے وہ ہمیں مل جائے اک پرندہ اسی امید پہ آزاد کیا ہائے وہ شخص جو کرتا تھا ہماری خواہش رقص تنہائی میں آج اس کو بہت یاد کیا مصلحت کوش زمانے میں بھی سچ بول سکے ہم نے اس شہر میں وہ آئنہ ایجاد ...

    مزید پڑھیے

    دل کو رہ رہ کے یہ اندیشے ڈرانے لگ جائیں

    دل کو رہ رہ کے یہ اندیشے ڈرانے لگ جائیں واپسی میں اسے ممکن ہے زمانے لگ جائیں سو نہیں پائیں تو سونے کی دعائیں مانگیں نیند آنے لگے تو خود کو جگانے لگ جائیں اس کو ڈھونڈیں اسے اک بات بتانے کے لیے جب وہ مل جائے تو وہ بات چھپانے لگ جائیں ہر دسمبر اسی وحشت میں گزارا کہ کہیں پھر سے ...

    مزید پڑھیے

    وہ منتظر ہیں ہمارے تو ہم کسی کے ہیں

    وہ منتظر ہیں ہمارے تو ہم کسی کے ہیں علامتوں میں یہ آثار خودکشی کے ہیں پس مراد بہت خواب ہیں نگاہوں میں سمندروں میں جزیرے یہ روشنی کے ہیں میں اپنے آپ کو دشمن کے صرف میں دے دوں یہ مشورے تو مری جان واپسی کے ہیں ہجوم عکس ہے اور آئینہ صفت ہوں میں سو میرے جتنے بھی دکھ ہیں وہ آگہی کے ...

    مزید پڑھیے

    مصروفیت اسی کی ہے فرصت اسی کی ہے

    مصروفیت اسی کی ہے فرصت اسی کی ہے اس سرزمین دل پہ حکومت اسی کی ہے ملتا ہے وہ بھی ترک تعلق کے باوجود میں کیا کروں کہ مجھ کو بھی عادت اسی کی ہے جو عمر اس کے ساتھ گزاری اسی کی تھی باقی جو بچ گئی ہے مسافت اسی کی ہے ہوتا ہے ہر کسی پہ اسی کا گماں مجھے لگتا ہے ہر کسی میں شباہت اسی کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2