رونق رضا کی غزل

    نہ جانے کون سا منظر نظر سے گزرا تھا

    نہ جانے کون سا منظر نظر سے گزرا تھا کہ مدتوں کوئی سودائے سر سے گزرا تھا پھر اس کے بعد انا کا شکار ہو بیٹھا میں ایک بار تری رہگزر سے گزرا تھا بسی ہوئی ہے مہک تیرے پیرہن جیسی ابھی ابھی کوئی جھونکا ادھر سے گزرا تھا گزر سکا نہ ترے ضبط کے حصار سے جو وہ سیل غم بھی مری چشم تر سے گزرا ...

    مزید پڑھیے

    رات کی ساری حقیقت دن میں عریاں ہو گئی

    رات کی ساری حقیقت دن میں عریاں ہو گئی خواب کی تعبیر پڑھ کر آنکھ حیراں ہو گئی ہر نفس سیل حوادث ہر قدم امواج غم زندگی اس دور میں طوفاں ہی طوفاں ہو گئی آرزو در آرزو بڑھتی گئیں محرومیاں ہر تمنا رفتہ رفتہ دشمن جاں ہو گئی کتنی بے معنی رفاقت ابر کے ٹکڑوں میں تھی دیکھ کر میرے گھروندے ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے خواب ہماری پسند ہوتے گئے

    ہمارے خواب ہماری پسند ہوتے گئے ہم اپنے آئینہ خانوں میں بند ہوتے گئے یہ کیا ہوا کہ بہ ایں جسم اس سے ملتے رہے مگر فراق کے صدمے دو چند ہوتے گئے ہر ایک فتح پہ مغرور ہو رہا تھا وہ ہر اک شکست پہ ہم خود پسند ہوتے گئے ہم ایسے بکھرے کہ اپنے ہی کام نہ آ سکے کسی کے حق میں مگر سود مند ہوتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2