راشد آذر کی نظم

    سایہ

    دن بھر کے مصروف قدم جب لوٹ کے گھر کو آتے ہیں تو اپنے ساتھ تھکے شانوں پر شل ہاتھوں کا بار اٹھائے بوجھل آنکھوں کی مدھم بینائی لے کر آؤ آزر سننے کی اک ہلکی سی امید لیے گھر کی دہلیز پہ رک جاتے ہیں اور پرانا دروازہ جب کھلتا ہے تو سب مانوس دریچے بانہیں پھیلا کر ان قدموں کی آہٹ پر آنے ...

    مزید پڑھیے

    خوابوں کے رشتے

    وہ خواب جو میری زندگی تھے وہ کب کے ردی کی ٹوکری میں پڑے ہوئے ماندگی کے وقفے کے منتظر ہیں کہ میں کبھی کارزار ہستی کے شور و غل سے تھکوں تو بس ایک لمحہ رک کر انہیں اٹھا لوں

    مزید پڑھیے

    تجزیہ

    دوستو آج بے سمت چلتے ہیں لوگ تم بھی اس بھیڑ میں کھو کے رہ جاؤگے آؤ ماضی کی کھولیں کتاب عمل اک نظر سرسری ہی سہی ڈال کر دیکھ لیں اپنے سب کارناموں کا حشر تجزیہ اپنی ناکامیوں کا کریں اپنی محرومیوں پر ہنسیں خوب جی کھو کر اور سوچیں کہ کیوں شہر کے شور میں گم کراہوں کا نوحہ ہوا ہم پہ کیوں ...

    مزید پڑھیے

    زاد سفر

    یہ زندگی کا سفر عجب ہے کہ اس میں جو بھی ملا وہ مل کر بچھڑ گیا ہے چلا تھا جب کارواں ہمارا نئے افق کی طرف تو ہم بھی جواں امنگوں کے پاسباں تھے قدم قدم پر جب ایک اک کر کے سب ہمارے رفیق چھوٹے تو جن نئی منزلوں کی جانب چلے تھے کل ہم وہ سب افق کی طرح گریزاں خلاء میں تحلیل ہو گئی تھیں میں اس ...

    مزید پڑھیے

    سفر

    یہ مانا چند لمحوں کی رفاقت بھی بہت ہے آج کل لیکن مرے اندر کا سناٹا کبھی دیکھو تو جانو گے کہ میں کیوں نیند کی خاموش تاریکی سے ڈرتا ہوں کئی دن سے تو میں نے خواب بھی ڈر ڈر کے دیکھے ہیں جو سناٹے کا عادی ہو گیا ہو اس کے کانوں کو خزاں میں پیڑ سے ٹوٹے ہوئے پتوں کے گرتے وقت ہلکی سی تڑپنے کی ...

    مزید پڑھیے

    سیرابی

    بے مہرئی دنیا کی کڑی دھوپ میں اکثر دیکھا ہے کہ جھلسا دیا جب غم کی تپش نے مرجھا دیا جب درد کی شدت نے بدن کو اور ہونٹ دم باز پسیں سے لرز اٹھے چھایا ہے گھٹا ٹوپ تیرے پیار کا بادل برسی ہے دھواں دھار ترے لطف کی بارش تو نے مجھے اس طرح بھی سیراب کیا ہے

    مزید پڑھیے

    افق کے اس پار

    وہ اک گھڑی بھی کبھی مری زندگی میں آئی تھی اتفاقاً کہ میں کسی کا نہیں تھا میرا کوئی نہیں تھا میں لوح محفوظ کی طرح تھا سمجھ رہا تھا کہ ساری فرداودی کی باتیں ہیں ذہن پر نقش جاوداں سی وہ سب حوادث جو آنے والے ہیں لوح دل پر لکھے ہوئے ہیں میں اب کسی کا نہیں ہوں کوئی مرا نہیں ہے اگر تم اس ...

    مزید پڑھیے

    انکشاف

    سر بزم کل مجھے دیکھ کر وہ اسی خیال سے ڈر گئی کہ میں اس کی اور ہواؤں میں کہیں اپنا بوسہ اڑا نہ دوں وہ سمٹ کے اور سنور گئی کچھ عجیب خوف سا دل میں تھا مجھے دیکھ کر وہ پلٹ گئی نہ تو بھول ہے نہ تو یاد ہے یہ سپردگی کا تضاد ہے وہ کھڑے کھڑے جیسے سو گئی وہ تصورات میں کھو گئی وہ تصورات بھی خوب ...

    مزید پڑھیے

    سلسلۂ زندگی

    جب رگیں ٹوٹنے لگ جائیں لہو کی گردش جس گھڑی جسم میں تھم جائے تو اک لمحے کو وقت رک جائے گا جن جن کا جڑا ہے اس سے آب و دانہ وہ کبھی آج کے غم اور کبھی کل کے سفاک مسائل کے کسی حل کی خلش اور بے درد حقیقت کی گھٹن دل میں لیے کبھی روئیں گے کبھی فکر میں کھو جائیں گے کل پھر اک صبح نئے مسئلے لے ...

    مزید پڑھیے

    جھوٹ سچ

    اگر یہ سچ ہے تو لوگ کیا صرف ایک ہی سچ کو مانتے ہیں یہ سچ اگر زاویہ نہیں ہے نگاہ کا تو بتاؤ کیا ہے کہ میں کھڑا ہوں جہاں وہاں سے تمہارے چہرے کا ایک ہی رخ عیاں ہے جیسے تم آدھے چہرے کے آدمی ہو اگر یہ سچ ہے تو پھر بتاؤ کہ جھوٹ کیا ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2