راشد آذر کے تمام مواد

21 غزل (Ghazal)

    عزم بلند جو دل بیباک میں رہا

    عزم بلند جو دل بیباک میں رہا عکس جلیل اس کا مری خاک میں رہا میرے لبوں پہ ڈھونڈتے گزری تمہاری عمر اظہار غم تو دیدۂ نمناک میں رہا چھوٹا سا ایک ذرہ ہی وجہ حیات ہے ذوق نمو کہاں خس و خاشاک میں رہا پھاڑا ہے اس کے غم نے گریباں کو اس طرح بس ایک تار دامن صد چاک میں رہا آزرؔ ہے اک تسلسل ...

    مزید پڑھیے

    خیال کی طرح چپ ہو صدا ہوئے ہوتے

    خیال کی طرح چپ ہو صدا ہوئے ہوتے کم از کم اپنی ہی آواز پا ہوئے ہوتے ترس رہا ہوں تمہاری زباں سے سننے کو کہ تم کبھی مرا حرف وفا ہوئے ہوتے عجیب کیفیت‌ بے دلی ہے دونوں طرف کہ مل کے سوچ رہے ہیں جدا ہوئے ہوتے بہت عزیز سہی ہم کو اپنی خود داری مزہ تو جب تھا کہ تیری انا ہوئے ہوتے یہ آرزو ...

    مزید پڑھیے

    فاصلہ رکھو ذرا اپنی مداراتوں کے بیچ

    فاصلہ رکھو ذرا اپنی مداراتوں کے بیچ دوریاں بڑھ جائیں گی پیہم ملاقاتوں کے بیچ کیا بھروسہ کم ہوا بے اعتباری بڑھ گئی طنز کا لہجہ در آیا پیار کی باتوں کے بیچ تو بھی میرے عکس کے مانند میرے ساتھ ہے میں اکیلا کب رہا ہوں دکھ بھری راتوں کے بیچ شکوہ سنجی نے خلوص التجا کم کر دیا کچھ ...

    مزید پڑھیے

    کم سے کم اپنا بھرم تو نہیں کھویا ہوتا

    کم سے کم اپنا بھرم تو نہیں کھویا ہوتا دل کو رونا تھا تو تنہائی میں رویا ہوتا صبح سے صبح تلک جاگتے ہی عمر کٹی ایک شب ہی سہی بھر نیند تو سویا ہوتا ڈھونڈھنا تھا مرے دل کو تو کبھی پلکوں سے میرے اشکوں کے سمندر کو بلویا ہوتا دیکھنا تھا کہ نظر چبھتی ہے کیسے تو کبھی اس کے پیکر میں ...

    مزید پڑھیے

    سایہ تھا میرا اور مرے شیدائیوں میں تھا

    سایہ تھا میرا اور مرے شیدائیوں میں تھا اک انجمن سا وہ مری تنہائیوں میں تھا چھنتی تھی شب کو چاندنی بادل کی اوٹ سے پیکر کا اس کے عکس سا پرچھائیوں میں تھا کوئل کی کوک بھی نہ جواب اس کا ہو سکی لہرا ترے گلے کا جو شہنائیوں میں تھا جس دم مری عمارت دل شعلہ پوش تھی میں نے سنا کہ وہ بھی ...

    مزید پڑھیے

تمام

20 نظم (Nazm)

    آبلہ

    وہ رات کتنی عجیب تھی کٹ نہیں رہی تھی کہ وقت ہی جیسے رک گیا تھا زبان چپ تھی نگاہیں اک داستان محرومیٔ تمنا سنا رہی تھیں بساط آغوش بجھ گئی تھی ہمارا ہی انتظار تھا فرش دل بری کو مگر ہم اپنی شرافت نفس کی گراں باریوں سے مجبور ہو گئے تھے خود اپنی فطرت سے اس قدر دور ہو گئے تھے کہ دل کی آواز ...

    مزید پڑھیے

    بے بسی

    یہ جینا کیا یہ مرنا کیا کچھ بھی تو ہمارے بس میں نہیں اک جال بچھا ہے خواہش کا اور دل ہے کہ پھیلا جاتا ہے ہم بچنے کی جتنی کوشش کرتے ہیں پھنستے جاتے ہیں یہ ریگ روان عمر ہی کچھ ایسی ہے کہ دھنستے جاتے ہیں جب ریت ہمارے پیروں کے نیچے سے کھسکنے لگتی ہے دنیا کی تمنا بجھتی ہوئی آنکھوں میں ...

    مزید پڑھیے

    ان چاہی موت

    فاصلہ جب تمہارے مرے درمیاں کا ذرا بڑھ گیا تو تمہاری جدائی کے احساس کی گرم بوندیں مری منتظر چشم بے خواب سے رات بھر قطرہ قطرہ ٹپکتی رہیں صبح تک کروٹیں میرے بستر پہ جلتی رہیں آگ سی خون کے ساتھ میرے بدن میں دہکتی رہی یاد کی شمع کمرے میں شب بھر سلگتی رہی اور تمہارا نشہ میری نس نس ...

    مزید پڑھیے

    رات کے سائے

    میزوں کے شیشوں پر بکھرے خالی جام کے گیلے حلقے سگریٹوں کے دھوئیں کے چھلے دیواروں پر ٹوٹ چلے ہیں سارا کمرہ دھواں دھواں ہے ساری فضا ہے مہکی مہکی دو اک دھندلے دھندلے سر ہیں جھکے ہوئے بے سدھ ہاتھوں پر رات کا نشہ ٹوٹ رہا ہے جب آئے تھے اس محفل میں نئے پرانے سب ساتھی تھے کون کسے پہچانے گا ...

    مزید پڑھیے

    وقت وقت کی بات ہے

    وہی ہم تھے کہ اس شہر سکوں میں رت جگوں کی دھوم تھی ہم سے وہی ہم ہیں کہ شہر بے اماں کی بھیڑ میں خود اپنی تنہائی پہ حیراں ہیں ہمارا جبر مجبوری ہمیں جب صبر آمادہ بناتا ہے تو آنکھیں اس قدر شعلے اگلتی ہیں کہ خاموشی بھی اک شور فغاں معلوم ہوتی ہے

    مزید پڑھیے

تمام